پاکستان اور تاجکستان نے مختلف شعبوں میں تعاون کے 12معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کر دیے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں میں انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ کے معاہدے،نمل اور تاجک انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے ہیں ۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں سے تاجکستان پاکستان کے قریب ترین واقع ہے۔ ایک جگہ پر تو دونوں ممالک کی سرحد کو افغانستان کا فقط15کلو میٹر پر محیط علاقہ واخان جدا کرتا ہے، اس کے علاوہ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی ہوائی مسافت پر ہے۔ پاکستان کی بحیرہ عرب میں واقع بندرگاہ تاجکستان کے لئے سمندری تجارت کا نزدیک ترین راستہ ہے۔ اسی بنا پر تاجکستان کی آزادی کے بعد ہی یہ خواہش تھی کہ پاکستان کے ساتھ مضبوط و مستحکم دوطرفہ تعلقات قائم کئے جائیں۔کیونکہ اسے ایک تو گرم پانی تک رسائی ستا رہی تھی دوسراوہ کسی نہ کسی طرح سمندری تجارت میں قدم رکھنا چاہتا تھا ،یہ دونوں کام پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کیے بغیر نہ ہو سکتے تھے ۔لیکن دونوں ممالک کو افغانستان کے مسائل سے فرصت ہی نہ ملی،جب آپ کے ہمسائے میں آگ لگی ہو تو اسے ٹھنڈا کرنے یا اسے بجھانے کی ہر کوئی کوشش کرتا ہے۔اس لیے پاکستان تو مکمل طور پر اس آگ کو ٹھنڈا کرنے میں لگا رہا ،امید ہے اس کے ثمرات جلد ملنا شروع ہو جائیں گے ،جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی کل کہا کہ افغانستان میں امن کی کوشش ناکام ہوئی تو اس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے ۔اس لیے افغانستان میں امن کا قائم ہونا سب کی اولین ترجیح ہے ۔ جغرافیائی قربت کے اعتبار سے پاکستان اور تاجکستان کے مابین معیشت‘ صحت ‘ توانائی اور دفاع سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے بڑے مواقع موجود ہیں۔ افغانستان میں اگر امن قائم ہوتا ہے تو پاکستان کے مابین زمینی تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔ جبکہ دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے کی سیاحت سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔ چین کے ون بیلٹ روڈ منصوبے نے وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس کے لئے پاکستان میں بڑی دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ افغانستان میں بدامنی کے باعث تاجکستان ون بیلٹ روڈ منصوبے میں بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے،جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے استعمال کے لئے گیٹ وے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ چین بھی پاکستان اور تاجکستان کے مابین سڑکوں کا ایسا جال بچھا رہا ہے جو خطے کے تمام ممالک کو آپس میں جوڑ دے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان 2000ء میں باہمی تجارت صرف 15ملین ڈالر تھی، اسے بڑھانے کی کوشش کی گئی تو 2014ء میں 90ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین حالیہ معاہدوں کو جب عملی شکل ملے گی تو یہ تجارت کو 500ملین ڈالر تک پہنچانے میں سنگ میل ثابت ہونگے۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان توانائی کا ایک منصوبہ کاسا 1000طے پایا تھا۔ اس منصوبے کے تحت تاجکستان اور پاکستان کے درمیان بجلی کی ترسیل کے لئے لائن بچھانے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا تھا۔ تاجکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جو ہائیڈرو الیکٹرک پاور پیدا کرتا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کو تقریباً 1300میگاواٹ بجلی مہیا کرے گا۔ اس منصوبے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کو اس شعبے میں ٹیکنیکل اور معاشی معاونت بھی فراہم کریں گے۔ اس منصوبے کے بارے امید تھی کہ یہ 2018ء تک مکمل ہو جائے گا لیکن ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔ خدشات یہی ہیں کہ جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا تو اس وقت تک پاکستان کے پاس اپنی بجلی وافر ہو چکی ہو گی۔ اس لئے اس منصوبے پر اگر برق رفتاری سے کام کیا جائے تو ہی اس کے ثمرات کو سمیٹا جا سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کئی ہائیڈرو منصوبے زیر تکمیل ہیں ان کے مکمل ہونے سے بجلی کی پیداوار 36ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہو جائے گی تب ہم بجلی میں خودکفیل ہونگے ہم بجلی برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہونگے جبکہ کاسا 1000معاہدے کے مطابق پاکستان مئی تا اکتوبر اس منصوبے میں شامل ممالک سے روزانہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی 9.50سینٹ فی یونٹ کے حساب سے خریدنے کا بھی پابند ہو گا۔ لہٰذا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کاسا 1000منصوبے کی بروقت تکمیل کی جائے تاکہ ہم بحران کے دنوں میں اس منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ تاجکستان میں شرح خواندگی تقریباً 100فیصد ہے، جو ہمیں شعبہ تعلیم میں تعاون کے مواقع کی نشاندہی کرتی ہے۔ نمل اور تاجک انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز کے مابین مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط تو ہوئے ہیں لیکن اگر حکومت پاکستان یا وزارت تعلیم تاجکستان وزارت تعلیم سے معاہدہ کرتی،تو اس کے ثمرات سے ہر پاکستانی مستفید ہو سکتا تھا۔ حکومت پاکستان کو ایسا معاہدہ کرنا چاہیے جو کم اخراجات میں بہتر تعلیم فراہم کر سکے کیونکہ اگر پاکستان کا شعبہ تعلیم اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے ، یہاں شرح خواندگی بہتر ہو جائے تو سبھی مسائل حل ہو جائیں گے ۔ بدقسمتی سے ہمارا شعبہ تعلیم ہی کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ یہاں پر معیاری تعلیم کا سرے سے ہی وجود نہیں ہے۔ اس لئے تاجکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا بہترین راستہ پاکستانی طلبا کے لیے تاجک یونیورسٹیوں کے دروازے کھولنا ہے۔ تاکہ ہمارے طلبا تاجکستان میں تعلیم حاصل کر کے دونوں ملکوں کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرنا شروع ہو جائیں۔اس سے نہ صرف ہمارا معیار تعلیم بہتر ہو گا بلکہ تعلقات بھی مضبوط و مستحکم ہوں گے ۔