ریڈیو کی جاب نے ہمیں لاہور سے اسلام آباد بدر کردیا۔ دارالحکومت کے سیکٹر H-9 میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی ایک اکیڈمی تھی جہاں نوجوان پروڈیوسرز کو براڈ کاسٹنگ، ایڈیٹنگ، مکسنگ اور تلفظ کے اسرار و رموز سمجھائے جاتے تھے۔ اس اکیڈمی میں لگتا تھا ایک منی پاکستان موجود ہو۔ سندھ، سرحد، بلوچستان، گلگت، سکردو، پنجاب سبھی جگہ کا ٹیلنٹ موجود تھا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے فیصل آباد سے جی ٹی روڈ کے گکھڑ منڈی تک سے بھی نوجوان خواتین و حضرات موجود تھے۔ ہم سب کے گروپ بنادیئے جاتے۔ ہر گروپ کو ایک براڈ کاسٹنگ انجینئر بھی دے دیا جاتا۔ ہم خود ہی آئیڈیاز اور سکرپٹ بناتے اور پھر ہمارے گروپ سے کوئی ایک اس کو اپنی آواز میں پیش بھی کرتا۔ پھر تمام نوجوان پروڈیوسرز اکٹھے ہوجاتے اور ان کے اساتذہ بھی۔ پھر ہر پروگرام کا پوسٹ مارٹم ہوتا۔ تعریف کم کم اور تنقید زیادہ ہوتی۔ ہمارے انسٹرکٹر پاکستان کے پہلے براڈ کاسٹر مصطفیٰ علی ہمدانی کے بیٹے خوبرو صفدر علی ہمدانی تھے۔ اس وقت کی مقبول ترین ٹی وی نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر ان کی اہلیہ تھیں۔ وہ اکیڈمی کے اندر ہی رہتے تھے۔ ایک دن لاہور سے والدہ کا فون آیا کہ تم نے پبلک سروس کا امتحان دیاتھا، اس کا اپوائنٹ منٹ لیٹر آگیا ہے۔ بطور لیکچر پوسٹنگ ہوگئی۔ شش و پنج نے گھیر لیا۔ شام کو صفدر ہمدانی صاحب کے آگے لیٹر رکھا۔ کہنے لگے لیکچرر بن کر آپ ریڈیو میں بھی کام کرسکتے ہو اور سی ایس ایس کی تیاری بھی۔ میرا تجربہ تمہیں یہی نصیحت کرتا ہے کہ لیکچرر شپ میں چلے جائو۔ اکیڈمی کے پرنسپل کو سارا ماجرا بتایاتو وہ اصرار کرنے لگے کہ آپ اسی شعبے میں رہیں مگر ہم ریڈیو چھوڑ کر لاہور آگئے۔ یہاں آکر سلیم خان گمی صاحب کو بتانا اشد ضروری تھا کہ ہم نے ریڈیو کو خیرباد کہہ دیا۔ اگلے ہی دن ریڈیو پاکستان لاہور پہنچ گئے۔ سلیم خان گمی صاحب جس کمرے میں بیٹھے تھے وہ خاصا بڑا تھا۔ سامنے دیوار کے ساتھ ان کی کرسی اور ٹیبل ہوتی تھی اور اطراف میں ملاقاتیوں کے لیے صوفے لگے ہوتے تھے۔ اگر آپ باہر دھوپ اور روشنی سے آئیں تو آپ کو کمرے کی مصنوعی روشنی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں وقت لگ جاتا ہے مگر زیادہ نہیں۔ کمرے میں داخل ہوکر سیدھے گمی صاحب کے پاس، ان سے ہاتھ ملا کر واپس اطراف پر لگے ہوئے صوفوں پر بیٹھنا چاہا تو حیرت میں ڈوب گیا۔ سحر انگیز فلم اسٹار محمد علی… بھاری بھرکم شخصیت کے مالک مصطفی قریشی … بے پناہ ایکٹر قوی خان اور وارث فیم شجاعت ہاشمی تشریف فرما تھے۔ سب سے ہاتھ ملا کر بیٹھ گیا مگر شدید امپریس حالت میں۔ اب گمی صاحب کی بولنے کی باری تھی ’’یہ نوجوان شدید ریاضت سے گزر کر ریڈیو پروڈیوسر بنا اور کل اسے خیرباد کہہ کر لاہور آگیاہے۔ اس کا استعفیٰ ابھی منظور نہیں ہوا‘‘۔ بس پھر کیا تھا …ہر طرف سے پروفیشنل نصیحتوں کا سیلاب اور سکتے کے عالم میں ہم۔ چاروں ہی یکتا پروفیشنل تھے۔ ہم کیا بولتے؟ جی …جی اور بس جی کی گردان تھی اور ہم تھے۔ محمد علی صاحب کی شخصیت کا سحر اور آواز کم نہ تھا کہ مصطفی قریشی صاحب نے بتایا کہ میں نے بھی کیریئر حیدر آباد ریڈیو سے ہی شروع کیا اور محمد علی صاحب نے بھی۔ ہم ان سے اصولی طور پر اتفاق کرکے اٹھے کہ ہم اپنا استعفیٰ واپس لے لیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور ہم لیکچرر شپ اور سی ایس ایس کی راہداریوں میں الجھتے چلے گئے۔ غالباً 2000ء کی بات ہے بابائے سرکس میاں فرزند کے صاحبزادے میاں امجد فرزند نے دنیائے سرکس پر ایک ڈرامہ بنانے کا سوچا۔ میاں صاحب کے دوستوں میں ایک خوبرو ٹی وی اداکار ضیا خان بھی تھا۔ ضیاء خان کے عابد علی سے بہت اچھے تعلقا ت تھے۔ عابد علی …منو بھائی کے لکھے ہوئے ڈرامے دشت کی ڈائریکشن دے کر اس شعبے میں اپنا نقش بناچکے تھے۔ عابد علی نے جس اگلے ڈرامے کی ڈائریکشن دی اس کا نام ’’غرور‘‘ تھا۔ منفرد کالم نگار اور بے پناہ قلم کار حسن نثار صاحب اس ڈرامے کے رائٹر تھے۔ اس ڈرامے میں ضیاء خان نے بھی پرفارم کیا تھا۔ جب امجد فرزند نے سرکس پر ڈرامہ بنانے کی ٹھانی تو ضیا خان نے حسن نثار صاحب سے درخواست کی اور وہ سرکس پر مبنی ڈرامہ لکھنے پر آمادہ ہوگئے۔ ڈرامے کا نام تھا ’’ہوا پر رقص‘‘۔ عابد علی کا نام بطور ہدایت کار طے پایا۔ ایک دن میری ملاقات راشد فرزند اور ضیاء خان سے ہوئی۔ ضیاء خان نے مجھے کہا کہ آپ حسن نثار صاحب کو اسسٹ کریں اس ٹی وی سیریل کے لیے۔ ضیاء خان نے ان سے ملوایا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں لیکچر اور ڈرامے کے مراحل کے درمیان توازن رکھ پائوں گا۔ مگر حسن نثار صاحب کے ساتھ کام کرنے کی دھن تھی کہ بس۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب لیکچر ختم ہوا …کب پروڈکشن ہائوس میں پہنچا اور کب رات گئے گھر واپس آیا۔ حسن نثار صاحب کہانی اور سکرپٹ کے خالق تھے۔ امجد فرزند فنانس کررہے تھے۔ عابد علی ہدایت کار تھے۔ اس وقت ہالی ووڈ کا ایک ڈائریکٹر Titanic بنا کر ہر خاص و عام کی زبان پر تھا۔ اس کا نام تھا جمیز کیمرون۔ ڈرامے کی ٹیم میں سبھی عابد علی صاحب کو پیار سے جیمز کیمرون کہتے تھے۔ ٹیم کے سبھی افراد محنتی نہیں، شدید محنتی تھے۔ کہانی اور ون لائنر حسن نثار صاحب لکھ چکے تھے۔ اب سکرین پلے اور مکالمے لکھنے کا مرحلہ چل رہا تھا۔ عابد علی سکرین پلے لکھ کر یا لکھتے ہوئے حسن بھائی سے ڈسکس کرتے۔ مجھے وہ ساری ڈسکشن کے نوٹس لینے ہوتے اور پھر جب حسن صاحب مکالمے لکھواتے تو وہ ساری ٹپس اور نوٹس بھی ساتھ ڈسکس ہوتے۔ عابد علی صاحب کو ایک گمنام فلم ڈائریکٹر اسسٹ کررہا تھا۔ اس کا نام مراد علی تھا۔ وہ بچپن میں چائلڈ سٹار ہوتا تھا اور بڑا ہوکر ڈائریکٹر بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ فلم انڈسٹری سے ایکسٹرا اداکار اور بونے بھرتی کرنے میں عابد علی صاحب کو اسسٹ بھی کرتا تھا۔ (جاری ہے)