اٹھائیس مئی کے دن کو پاکستانی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یوم تکبیر بھارتی ایٹمی تجربات کے جواب میں چاغی کے مقام پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ہونیوالے پانچ ایٹمی دھماکوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔اس دن پاکستان نے دنیا کی ساتویں جبکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کو پوکھران میں تین بم دھماکے کر کے بھارت نے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ بھارتی قیادت کی جانب سے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کو خطرناک دھمکیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ایک طرف بھارت دھمکیوں اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کی ایٹمی تجربہ گاہوں پر حملے کی تیاری کر رہا تھاتو دو سری جانب مغربی ممالک پابندیوں کا ڈراوا دیکر پاکستان کو ایٹمی تجربے سے باز رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی پانچ بار فون کر کے تب کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کا مشورہ دیا جبکہ اس کے بدلے کروڑوں ڈالر امداد کی پیشکش بھی کی گئی۔ تاہم عالمی دباؤ کے باوجود وزیر اعظم پاکستان نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اٹھائیس مئی کے دن پانچ ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا اور چاغی کے پہاڑوں پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ایٹمی تجربات کر دئیے گئے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر نے انیس سو چوہتر میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر ایٹمی پروگرام کے لیے کام کرنے پر آمادگی کا اظہار اور اسی سال کہوٹہ لیبارٹریز میں یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا گیا۔ پاکستانی سائنسدانوں نے انتہائی مشکل حالات کے باوجود ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا اور ملک کو جدید ترین ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک میں شامل کر دیا۔جنوری 1976ء میں ڈاکٹر خان نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ شروع میں انہیں کہوٹہ پروجیکٹ میں ریسرچ ڈائریکٹر کی ملازمت ملی۔ تاہم، جلدی ہی انہیں یہاں کام کرنے کے انداز اور صورتحال سے اختلاف ہونے لگا۔ اس پر بھٹو صاحب نے اس گروپ کو اٹامک انرجی کمیشن سے الگ کرکے ایک خودمختار ادارہ بنانے کی منظوری دے دی جس کی سربراہی خان صاحب کو سونپی گئی۔ یوں ’’پروجیکٹ 706‘‘ کے خفیہ نام سے 31 جولائی 1976ء کو اسلام آباد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر، کہوٹہ کے مقام پر ’’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ (ای آر ایل) کے قیام کا آغاز ہوا۔کہوٹہ پروجیکٹ میں کام کرنیوالے قابل ترین سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی خدمات جس میں جی ڈی عالم، جے اے مرزا اور انور علی شامل تھے — ای آر ایل منتقل کردی گئیں۔ 1976ء کی آخری ششماہی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کیفیت یہ تھی کہ بھٹو صاحب کے زیر نگرانی دو متوازی راستوں پر ایٹم بم تیار کرنے کی جدوجہد شروع ہوچکی تھی: ایک طرف ری پروسیسنگ پلانٹ کیلئے سفارتی محاذ پر جنگ لڑی جارہی تھی تو دوسری جانب سہالہ میں یورینیم انرچمنٹ پلانٹ پر نہایت تیز رفتاری سے کام شروع ہوچکا تھا۔لیکن تب تک اٹامک انرجی کمیشن کے با صلاحیت سائنسدان اپنا نیوکلیئر فیول سائیکل بنا چکے تھے۔ کہوٹہ میں افزودگی پلانٹ کی تنصیب کا کام بھی آخری مراحل میں تھا۔ افزودگی پلانٹ کیلئے زیادہ تر سامان انتہائی کامیاب حکمت عملی کے تحت بیرونِ ملک سے منگوایا گیا: مختلف جگہوں پر آرڈر دیئے جاتے تاکہ اگر ایک جگہ سے ٹھیکہ منسوخ ہو بھی جائے، تو دوسری جگہ سے مال پہنچ جائے۔ملک میں چین کے تعاون سے ایٹمی بجلی گھر بھی بنائے جا رہے ہیں جبکہ خوشاب کے قریب پلو ٹینیم تیار کرنیوالے دو نئے ایٹمی ری ایکٹرز بھی مکمل ہو چکے ہیں۔ خوشاب میں ہی ایک اور ایٹمی پلانٹ کی تعمیر بھی جاری ہے جن سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی ملکی صلاحیت میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع دن سے ہی عالمی سازشوں اور شدید تنقید کا شکار ہے۔ پاکستانی کی ایٹمی طاقت کئی عالمی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے بعد باقاعدہ مخالفانہ مہم چلائی جاتی ہے۔ حکومت اور پوری قوم کا فرض ہے کہ ملکی سلامتی کی علامت اس ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہیں اور یہی یوم تکبیر کا پیغام ہے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے محب وطن اور اسلام پسند افراد نے تاریخی کردار ادا کیا‘ اس معاملے میں حکومت وقت سے قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ بعض بڑے بڑے حاشیہ نشین اور چاپلوس لوگوں کی ایک کھیپ مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کی ذمہ دار قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی۔21 مئی 1998ء کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں مدیران اخبارات و جرائد سے ملاقات کی۔ بعض دانشور مدیران جرائد نے دبے لفظوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی۔ ایسے ماحول میں واحد آواز جناب مجید نظامی کی تھی جنہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔ دھماکے کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلیویژن پر اپنی تاریخی تقریر کی اور انہوں نے بجا طور پر یہ بات کہی کہ ہم نے بھارت کا حساب بیباک کر دیا۔ بزدل دشمن ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا۔ دفاعی پابندیاں لگیں تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی سرخرو ہوں گے۔ الحمدللہ ! آج 28 مئی کو یومِ تکبیر منایا جارہا ہے۔ یہ یومِ تفاخر ہے اور ہماری قومی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔