پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ایک ہی زمین پر غزل کہی جا رہی ہے : کیا معاملہ ہے افغانستان کے شہری ہم سے خفا ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کچھ وہ ہیں جو اپنے خبثِ باطن میں پاکستان پر فردِ جرم عائد کر دیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو برادرم عامر خاکوانی کی طرح درد مندی اور درد دل کے ساتھ پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔میرا سوال مگر قدرے مختلف ہے۔سوال یہ ہے سارا مشاعرہ اس زمین پر کیوں؟ ایک غزل اس پر کیوں نہ ہو جائے کہ پاکستان کاشہری افغانستان کے بارے میں کیا سوچتا ہے ؟افغانوں کے سینے میں اگر دل ہے تو ہمارے سینے کیا سنگ مر مر کے بنے ہوئے ہیں؟ پاکستان معرض وجود میں آیا، افغانستان پڑوسی تھا، مسلمان بھی تھا لیکن اس نے کیا کیا؟ اقوام متحدہ میں ہمارے خلاف ووٹ دے دیا۔ کیا کسی کو احساس ہے اس سے پاکستان پر کیا بیتی؟ پاکستان کے وجود کو سب سے پہلے کس نے تسلیم کرنے سے انکار کیا؟ افغانستان نے۔ پاکستان کے وجود کو مٹانے کے لیے سب سے پہلی کوشش کہاں سے ہوئی؟ افغانستان سے؟ پاکستان کے خلاف پہلی فوج کشی کس نے کی؟ افغانستان نے۔ پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کس نے کیا؟ افغانستان نے۔قائد اعظم محمد علی جناح کو بطور گورنر جنرل پاکستان پہلی دھمکی کس ملک کے سفیر نے دی؟ افغانستان نے۔پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کی ابتدا کس نے کی؟ افغانستان نے۔پاکستان میں دہشت گردی کے لے پہلا کیمپ کس حکومت نے قائم کیا؟ افغانستان نے۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قاتل سید اکبر ببرک کس ملک کا باشندہ تھا؟ افغانستان کا۔ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کی بنیاد کس نے رکھی؟ افغانستان نے۔ پاکستان کے خلاف پہلی دہشت گرد تنظیم’’ پشتون زلمے‘‘ کس کی سرپرستی میں تشکیل دی گئی؟ افغانستان کی۔ بلوچستان میں شورش اور بغاورت کا سرپرست کون تھا؟ افغانستان۔پاکستان کے علاقوں کو الگ ریاست بنا کر اس کی اسمبلی ، اس کا پرچم تک کس ملک میں تیار ہوا؟ افغانستان میں۔ پاکستان کے ایک صوبے کو پشتونستان ملک قرار دے کر اس کا پرچم اپنے قومی پرچم کے ساتھ کون لہراتا رہا؟ افغانستان ۔یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کس ملک میں ہوا؟ افغانستان میں۔ اس سب کے باوجود جب افغانوں نے ہجرت کی تو پاکستان نے دل کھول کر اپنے مسلمان بھائیوں کو خوش آمدید کہا۔یہ محض ریاستی فیصلہ نہ تھا۔ یہ سماج کا فیصلہ بھی تھا اور پورا معاشرہ چشم ما روشن دل ما شاد کی تصویر بن چکا تھا۔ یہاں کسی نے نہیں سوچا کہ تحریک خلافت میں جب جب ہجرت کی گئی اور مسلمان افغانستان گئے تو وہاں ان کے ساتھ ، ان کے مال و دولت کے ساتھ اور ان کی عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ، سب کچھ بھلا کر لوگوں نے افغان بھائیوں کو خوش آمدید کہا۔ مطالعہ پاکستان پر یہاں پھبتی کسی جاتی ہے لیکن ہم نے تو مطالعہ پاکستان میں بھی تحریک خلافت کا ذکر کرتے ہوئے اس وحشت اور درندگی کا ذکر نہیں کیا جس کا سامنا ہمارے بزرگوں کو افغانستان میں کرنا پڑا۔ہمارے مطالعہ پاکستان نے جب بھی افغانستان کا ذکر کیا یہی بتایا کہ وہ برادر اسلامی ملک ہے۔ پاکستان میں جہاں مرضی چلے جائیے آپ کو افغان شہری کاروبار کرتے نظر آئیں گے۔ ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں یہ لوگ بیٹھے ہیں اور بعض جگہوں پر تو مقامی تاجروں کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ لیبر میں یہ ہیں، دکانیں ان کی ہیں ، پلازے بنا کر بیٹھے ہیں، کپڑے کی مارکیٹوں پر ان کی اجارہ داری ہے۔ہمارے گائوں میں ایک چاچا شیر خان ہوتا تھا۔ سائیکل پر کپڑے بیچتا تھا پھر سرگودھا کی مارکیٹ پر ان کی اجکارہ داری بھی ہم نے دیکھی۔ ان کی اہلیہ ہماری خالہ ہوتی تھیں۔ ایک لمحے کو بھی احترام میںکمی آئی نہ یہ خیال گزرا کہ یہ لوگ پرائے ہیں۔لیکن آپ بتائیے کیا کسی غیر پشتون پاکستانی کے لیے افغانستان میں کاروبار کرنا تو دور کی بات ہے چائے کا ایک ڈھابا بنانے کی بھی گنجائش ہے؟قوم پرستی کا آزار لر میں بھی ہے اور بر میں بھی۔ کابل کو تو چھوڑیے، حیات آباد اور کارخانہ مارکیٹ میں کوئی پنجابی تاجردکھا دیجیے۔ہمیں تو گھروں میں بتایا جاتا ہے پٹھان بہادر ہوتا ہے ، پٹھان مہمان نواز ہوتا ہے ۔ میرے چونکہ بہت سے پٹھان دوست ہیں اور بہت پیارے دوست اس لیے مجھے خوب معلوم ہے ان کے گھروں میں پنجابی کو کن الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایپی فقیر افغانستان کی شہہ پر پاکستان سے لڑتے رہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خدائی خدمت گار والے لوگ جو عدم تشدد کے پیروکار ہیں ان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف اس لڑائی میں شریک رہے۔لیکن پاکستان نے ہمیشہ صرف نظر کیا ۔ ایپی فقیر طبعی موت مرے۔ آج بھی ان کا ایک عمومی احترام ہے۔ ان کی بغاوت کبھی زیر بحث ہی نہیں آئی۔ پاکستان کے دارالحکومت میں شاہراہ کشمیر اور آئی جے پی روڈ کو ملانے والی اہم ترین سڑک کا نام ایپی فقیر روڈ ہے۔ قوم پرستی کے آزار کو کبھی ہم نے نہیں اوڑھا ، دوسری جانب مگر ایسا خوفناک احساس برتری ہے کہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔کوئی ایک کمانڈر بتائیے جو افغانستان سے ہمارے ہاں آیا ہو اور بربادی کی داستانیں نہ چھوڑ گیا ہو۔ہم اپنے نصابوں میں احمد شاہ ابدالی سے لے کر نادر شاہ تک ہر اس شخص کو ہیرو بنا کر بیٹھے ہیں جو برصغیر لوٹنے آتا تھا اور اپنے پیچھے بربادی چھوڑ جاتا تھا کہ چلو مسلمان تو تھے ۔ہمارے ساتھ انہوں نے جو بھی کیا اس پر مٹی پائو۔ کو۔ دوسری جانب احساس برتری مگر تھمنے ہی میں نہیں آتا۔ دو طرفہ تجارت کے مذاکرات اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ افغانستان کہتا ہے بھارت کو شامل کرو ورنہ ہم بھی نہیں آ رہے۔باہم مل کر رہنا ہے تو ہر دو اطراف کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا ہو گا۔معاملہ محض اتنا نہیں کہ مستحکم پاکستان کے لیے مستحکم افغانستان ضروری ہے ، معاملہ یہ بھی ہے کہ مستحکم افغانستان کے لیے مستحکم پاکستان بھی بہت ضروری ہے۔احساس ذمہ داری میں پاکستان خاموش رہ کر قوم پرستوں کی جلی کٹی سنتا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا مقدمہ کمزور ہے۔