پاکستان میں اور بیرون ملک پاکستانی نژاد مسلمانوں نے 27 رمضان اُلمبارک کی رات ۔’’ شب ِ قدر ‘‘ کو عقیدت و احترام سے منایا اور تحریکِ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے مسلمانوں نے ’’ یوم آزادی‘‘ کے طور پر بھی۔ ’’تحریکِ پاکستان ‘‘کے نامور کارکن ، عالم دین اور قائداعظمؒ کے رفیق ِ کار مولانا عبداُلقدوس ہاشمی (مرحوم) نے اپنی تالیف ’’ تقویم تاریخی‘‘ ( قاموس تاریخی ) میں لِکھا ہے کہ’’ 1366 ھ (19 جولائی 1947ء بروز شنبہ (ہفتہ) کو قیام پاکستان کا اعلان ہُوا تھا‘‘۔ تحریکِ پاکستان کے بعض دوسرے اصحاب کا خیال ہے کہ ’’ اُس روز 14 اگست 1947 ء کا دِن تھا۔عُمر میں مجھ سے 6 سال بڑے ، تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان اُن اکابرین میں شامل ہیں جن ، کا اسرار ہے کہ ’’ پاکستان میں یوم آزادی 27 رمضان اُلمبارک کو منایا جانا چاہیے؟۔ معزز قارئین! میرے دادا جی رانا عبداُلرحیم خان چوہان کا 1917ء میں رمضان اُلمبارک کی 27 ویں شب کو انتقال ہُوا اور میرے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان ‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان بھی جنوری 1999ء میں رمضان اُلمبارک کی 27 ویں شب خالقِ حقیقی سے جا مِلے تھے ۔ مَیں ہر سال 27 رمضان اُلمبارک کو لاہور میں اپنے ’’ڈیرے ‘‘ پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو مدّعو کر کے اپنے دادا جی اور والد صاحب کے لئے قرآن خوانی اور اجتماعی دُعائے مغفرت کا اہتمام کر رہا ہُوں ۔ 26 جولائی 2014ء کو رمضان اُلمبارک کی 27 ویں شب تھی ۔ ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی خالق حقیقی سے جا مِلے تو، مَیں نے اُنہیں بھی اپنی اجتماعی دُعائوں میں شامل کر لِیا ہے ۔ تحریکِ پاکستان کے دَوران ۔1947ء میں ، ریاست ’’نابھہ ‘‘ ۔ ریاست ’’ پٹیالہ‘‘ اور ضلع ’’ امرتسر‘‘ میں میرے خاندان کے 26 افراد (زیادہ تر ) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے۔ ہجرت کے بعد ہمارا خاندان سرگودھا میں آباد ہُوا تو ، وہاں میرے والد صاحب نے میری تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کِیا۔ اُن کی وساطت سے ، سرگودھا میں میری ’’تحریکِ پاکستان‘‘ کے کئی کارکنوں سے دوستی ہوگئی تھی ۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا تو، اردو زبان میں میری ایک نعت ’’ لائل پور‘‘ ( اب فیصل آباد) کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے ۔ فائنل میں تھا جب ، مَیں نے ’’مسلک صحافت ‘‘ اختیار کِیا اور پنجابی زبان میں شاعری بھی شروع کردِی۔ اپنی زندگی میں میرے والد صاحب میرے راہبر و راہنما اور "Ideal" تھے ۔ اب بھی ہیں۔ اُنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں مجھے آگے بڑھنے کا سبق سِکھایا۔ اُن کا انتقال ہُوا تو ، مَیں نے اپنے پردادا جی ’’رانا محکم خان چوہان ‘‘ دادا جی ’’ رانا عبداُلرحیم خان چوہان ‘‘اور والد صاحب ’’رانا فضل محمد چوہان‘‘ کے ناموں کا ایک مِصرع بنایا ۔ ٹِیپ کا مصرع ۔ اور نظم لِکھی۔ نظم کے صِرف تین بند پیش کر رہا ہُوں … بندۂ اِیمان و اِیقان! مرد جری ، مرد میدان! صاحب عظمت ،صاحب شان! فضل ِ رحیم ، محکم خان! …O… حُسن سلُوک کا ، نُور مُجسّم! اَپنوں ، بیگانوں کا ، ہمدم! فَقر میں بھی ، مِثل سُلطان! فضل رحیم ، محکم خان! …O… اِک دِن وَصل کے ، پھول کھلیں گے! ہم سب، آپ سے ، آن ملیں گے! کب تک جئیں گے ؟ اثرچوہانؔ! فضل رحیم ، محکم خان! 1964ء کے اوائل میں جناب مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا تو، میرے ’’تحریکِ پاکستان ‘‘ کے کارکنوں سے مزید روابط بڑھ گئے جن، میں میانوالی کے مولانا عبداُلستّار خان نیازیؒ ، سرگودھا کے قاضی مُرید ؒ احمد اور جناب غلام نبی بختاوری (ماشاء اللہ بقیدِ حیات)خاص طورپر قابل ذِکر ہیں ۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ مِلّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناح ؒ ۔ فیلڈ مارشل ، کنونشن مسلم لیگ اور پاکستان کے صدر ، محمد ایوب خان کے مقابلے میں کونسل مسلم لیگ کی امیدوار تھیں جنہیں، بعد میں متحدہ اپوزیشن نے اپنا امیدوار بنا لِیا ۔ قاضی مُرید احمد ضلع سرگودھا میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ مَیں نے پنجاب کے کئی شہروں ’’ مادرِ مِلّت‘‘ کو ’’ ایوب آمریت‘‘ کو للکارتے دیکھا! ۔ مَیں نومبر 1969ء میں لاہور شِفٹ ہوگیااور جناب حنیف رامے کی ادارت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں سینئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دِیں ۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے اپنا ہفت روزہ ’’پنجاب ‘‘ لاہور جاری کِیا اور 11 جولائی 2000ء کو روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور۔ پھر جناب مجید نظامی سے میرے تعلقات کا نیا دَور شروع ہُوا۔ اُن سے میری کئی بار اسلام آباد اور لاہور کی سرکاری تقریبات میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ 1981ء سے ایڈیٹر ’’ سیاست‘‘ کی حیثیت سے میرے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ میرے بیرونی دوروں کا آغاز ہُوا ۔ ستمبر 1991ء میں مجھے ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ دورہ ٔ سعودی عرب میں ، ’’ خانہ ٔ کعبہ ‘‘ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ مجھے یقین ہے کہ اِس کا ثواب جناب مجید نظامی کو بھی مِلا ہوگا؟۔ مَیں جب کبھی ’’ نوائے وقت‘‘ میں کالم نہیں بھی لکھتا تھا تو، ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی وساطت سے میرا جنابِ مجید نظامی سے رابطہ رہا ۔ مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور اُن کی قومی خدمات پر کئی نظمیں لِکھیں ۔ 3 اپریل 2010ء کو پہلی بار ’’ ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان‘‘ لاہور میں جناب مجید نظامی کی سالگرہ منائی گئی تو، مَیں نے نظم پڑھی۔ نظم کے دو بند یوں ہیں … سجائے بَیٹھے ہیں ، محفل خلُوص کی ،احباب! کِھلے ہیں رنگ برنگے ، محبّتوں کے گُلاب! بنایا قادرِ مُطلق نے ، جِس کو ، عالی جناب! چمک رہا ہے ، صحافت کا ،مہِر عالم تاب! …O… خْوشا! مجِید نظامی کی برکتیں ہر سْو! ہے فکرِ قائدؒ و اقبالؒ کی نگر نگر خُوشبُو! اثر ؔدُعا ہے کہ ہو ، ارضِِ پاک بھی ، شاداب! چمک رہا ہے ، صحافت کا ،مہِر عالم تاب! 26 جولائی 2015ء کو جنابِ مجید نظامی کی پہلی برسی پر مَیں نے ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں منعقدہ تقریب میں نظم پڑھی جِس کا مقطع ہے کہ … ’’رواں ہے چشمۂ نُور کی صُورت، ہر سُو اِن کی ذاتِ گرامی جب تک پاکستان ہے زندہ، زندہ رہیں گے مجیدنظامی‘‘ ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میری کالم نویسی کا تیسرا دَور ۔12 اگست2012 ء سے فروری 2017ء تک رہا۔ 10 اپریل 2017ء کو میرا کالم روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں منتقل ہوگیا۔ قبل ازیں مَیں نے برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ۔ 20 فروری 2014ء کو ’’ ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان‘‘ میں چھٹی سالانہ ’’ نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ کے لئے ’’ملی ترانہ‘‘ لِکھا اور جب ، نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید کی دُھن پر "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے اُسے مِل کر گایا تو، ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔جناب نظامی نے مجھے اُسی وقت ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا ۔ معزز قارئین! میرے ملی ترانے کے صِرف دوشعر آپ کی نذر ہیں … پیارا پاکستان ہمارا، پیارے پاکستان کی خَیر! پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخُلص اِنسان کی خَیر! …O… خِطّۂ پنجاب سلامت، خَیبر پختوں خوا ، آباد! قائم رہے ہمیشہ ، میرا ، سِندھ ، بلوچستان کی خَیر! حقیقت یہ ہے کہ ’’دامادِ بھٹو ‘‘ آصف علی زرداری اور اُن کے بعد جنرل ضیاء اُلحق کے ’’لے پالک‘‘ نواز شریف نے میرے اور آپ کے پیارے پاکستان کا جو حال کردِیا ہے اُس کے لئے ، آج میری اور آپ کی پہلی ترجیح یہی ہونا چاہیے کہ ہم سب ۔ ربّ اُلعالمین سے ۔ ’’پاکستان میں رہنے والے ، ہر مُخلص اِنسان کی خَیر !‘‘ مانگیں!۔