جو لوگ آج اسے ایک سیاسی فتح قرار دیتے ہوئے خوشی اور مسرت کے شادیانے بجا رہے ہیں وہ دراصل آئندہ کے پاکستان میں جرم و سزا کے تمام معیارات کو سیاسی نعرہ بازی کے بدبودار گٹر میں غرق کر رہے ہیں۔ اگر لوگوں کا ہجوم نیب کی عمارت کو آگ بھی لگا دیتا ، وہاں پر موجود اہلکاروں کوقتل کر دیتا تو پھر بھی یہ سودا مہنگا نہیں تھا مگر فسادِ خلق سے ڈر کر مریم نواز کی پیشی ملتوی کی گئی۔ اس لیئے کہ جرم کی دنیا میں اگر لوگوں کے جم غفیر سے ڈر کر پسپائی اختیار کر لی جائے تو پھر آئندہ سے یہ دستور بن جاتا ہے کہ جس ملزم کے پاس لوگوں کی ایک ایسی کثیر تعداد موجود ہو، جو چند تفتیش کرنے والوں کو گھیرکر بے بس کر سکتی ہو تو پھر اس ملزم سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ایسے ہی اگر کوئی مجرم تمام شہادتوں کے بعد کسی عدالت سے سزا یافتہ قرار بھی دیا جائے تو لوگوں کا جم غفیر اس سزا پر عملدرآمد کو رکوا سکتا ہے۔ آج سے تقریباً تیس سال قبل بلوچستان ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان نے اپنی عدالتوں میں ایک نئی رسم ایجاد کی تھی، وہ کسی بھی جرم کی خبر پڑھتے، از خود نوٹس میں پولیس کو بلاتے یا دورانِ مقدمہ کسی تفتیش سے غیر مطمئن ہوتے تو متعلقہ پولیس آفیسر پر کھلی عدالت میں ٹوٹ پڑتے، لاتعداد لوگوں کے سامنے اس کی عزت خاک میں ملا تے، گالیوں کے علاوہ اس شخص کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیئے جس طرح کے بھی فقرے بولے جا سکتے تھے وہ بولتے اور جواب میںوہ پولیس یا کسی محکمے کا کارندہ سر جھکائے یہ سب سنتا رہتا۔ بدقسمتی سے یہ دونوں جج حضرات میرے استاد رہے تھے، میں نے اس وقت لکھا تھا کہ آپ نے جو یہ سرعام رسوائی کی رسم عدالت کے روبرو ایجاد کر دی ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں آئندہ شائد کبھی بھی قانون کی بالادستی اور اس کے نافذ کرنے والوں کی عزت و تکریم بحال ہو سکے۔ریاست یا حکومت کوئی نظر آنے والی چیزیں نہیں ہوتیں۔ ایک چوراہے پر کھڑا ٹریفک پولیس کا سپاہی، دراصل ریاست اور حکومت کی علامت ہوتا ہے۔ وہ جو مقامی تھانے میں موجود پولیس کے سپاہی کسی صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ یا چیف جسٹس وغیرہ کی آمد پر الرٹ ہو جاتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ کون کتنا اس ریاست میں اہم ہے۔ اگر اس سپاہی کی عدالت کے روبرو پیشی کے دوران عوام کے سامنے ذلت و رسوائی کر دی جائے تو پھر نہ ریاست کاوقار باقی رہتا ہے اور نہ ہی خود عدلیہ کی عزت و توقیر کا کوئی محافظ باقی بچتا ہے۔ عوام میں سے ہر کوئی جس وقت اور جب چاہے اہلکاروں پر چڑھ دوڑ سکتا ہے۔ کوئی بھی ملزم اپنے خیر خواہوں کا ایک جتھہ ساتھ لے کر تھانے کی حرمت پامال کر سکتا ہے اور اگر ایسا ملزم ووٹ لے کر کونسلر بھی منتخب ہوا ہو تو پھر وہ پولیس اہلکار کو اگر بے عزت کرتا ہے تو ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے سیاسی قد میں اضافہ کرتا ہے۔میں نے دست بستہ عرض کیا تھا کہ مجھے علم ہے کہ لوگ پولیس سے نالاں ہیں، تنگ ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ آپ ایک پولیس اہلکار کو عدالتی فیصلے کے ذریعے سخت سے سخت سزا دیں لیکن سرعام ڈانٹ ڈپٹ اور بے عزت کرنا چھوڑ دیں، اس کی پیٹی اتروانے کی دھمکیاں دینا وغیرہ ، یہ ایسا عمل ہے کہ پھر اس کے بعد جس کے بس میں جو آئے گا وہ آپ کی تقلید میں کرگذرے گا۔یہ ایک آغاز تھا، اوراس کے بعد گذشتہ تیس سالوں میں ریاست اور حکومت کا کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا، جسے عوامی غیظ و غضب کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ ہسپتال کے دروازوں پر ڈاکٹروں اور نرسوں سے لوگ الجھنے لگے،برسوں سے غیرحاضر اساتذہ پر جب ایکشن ہوا تو انہوں نے سیاسی پناہ حاصل کرتے ہوئے تمام انتظامیہ کو بے بس کرکے رکھ دیا۔اس کا بدترین مظاہرہ وہ ردّعمل تھا جسے انگریزی زبان میں ’’Back Lash‘‘ یعنی جوابی نتیجہ کہتے ہیںکہ جب وہی عدلیہ جو عدالتوں میں پولیس کو ذلیل و رسوا کرکے اپنی عزت و توقیر کو بلند کرنا چاہتی تھی، وکیلوں کے جتھوں کے سامنے بے بس ہوگئی۔ سیشن ججوں، سول ججوں، مجسٹریٹوں یہاں تک کہ ہائی کورٹ کے ججوں پر حملے ہوئے، انہیں ہراساں کیا گیا، چیمبروںاور دفتروں میں بند کیا۔ گالیاں دی گئیں۔ آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ بعض وکلاء کے اس طوفانِ بدتمیزی کا مقدمہ سن رہی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرلے گی۔ لیکن ایسا بہت مشکل ہے کیونکہ گذشتہ تیس برسوں میں جو نقصان ہو چکا ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی پر مہرتصدیق نیب کی پیشی کے ملتوی ہونے اور مریم نواز کا اسے اپنی ’’سیاسی اخلاقی‘‘ فتح سمجھنے کے بیان سے ثبت ہوچکی ہے اور اب یہ پہیہ رکنے والا نہیں ہے۔دراصل پاکستان کا یہ مرض بہت پرانا ہے اور اس کا آغاز اس دن ہوا تھا جب جرم کی دنیا اور سیاست نے آپس میں بانہیں پھیلا کر دوستی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ہر بددیانت نے جمہوریت کو اپنے لیئے ریت کی بوری کے طور پر استعمال کیا اور اپنے اوپر لگنے والے ہر الزام کی صفائی دینے کی بجائے اسے سیاسی نعرہ بازی میں بدل دیا۔ پاکستانی سیاست دانوں جیسا ڈھیٹ پن دنیا کے کسی دوسرے ملک کے سیاستدان میں نہیں ۔یہ کمال کے لوگ ہیں کہ کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ کرپشن کے ان داغوں کو باعثِ عزت بنا کرپیش کرتے ہیں۔نکاراگوا کا صدر آرنولڈ والیمان (Arnoldo Aleman)ایک عام ملزم کی طرح عدالت میں حاضر ہوتا رہا، دس کروڑ ڈالر کی کرپشن کا جرم ثابت ہوا،سزا سنی اور خاموشی سے بیس سال جیل گذارنے چلا گیا۔ یوکرین کا وزیراعظم پا ولولازرنیکو (Pavlo Lazarenko)بیس کروڑ ڈالر کی کرپشن پر عدالتوں میں پیش ہوا اور خاموشی سے جیل چلا گیا۔ پیرو کا صدر البرٹوٹ فیوجی مورو (Alberto Fujimori)پر ایک ارب ڈالر کا الزام تھا، ملک سے بھاگا، پکڑکر واپس لایا گیا، عدالت میں پیش ہواآٹھ سال سزا بھگتی ۔ اسی طرح ہیٹی کا صدر جین ڈولیئر (Jean Duvalier) پر الزامات تھے، ملک سے بھاگا ، 25سال جلا وطنی اختیار کی، وہیں مر گیا، لیکن عدالتوں نے فیصلہ دیا اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے چوری شدہ 7ملین ڈالر واپس منگوائے گئے۔ یوگوسلاویہ کا میلاسووچ ایک ارب ڈالر ، تیونس کا زین العابدین علی ڈھائی ارب ڈالر، نائجیریا کا سنّی اباچہ 5ارب ڈالر، کانگو کا موبوتوسیکو5ارب ڈالر، فلپائن کا مارکوس دس ارب ڈالر، انڈونیشیا کا سوھارتو 35ارب ڈالر، کی کرپشن کے ملزم ٹھہرائے گئے، تفتیش ہوئی، سزائیں ہوئیں، دولت واپس لائی گئی جیل گئے۔ لیکن ان سب میں کوئی ریلیاں لے کر نہ تفتیش کاروں کے دفتر پہنچا، نہ کسی کو عدالت نے ضمانت قبل از گرفتاری کی رعاتیں دیں۔ سب ایک ملزم کی طرح پیش ہوئے اور مجرم ٹھہرائے گئے۔ نیب کو مریم نواز للکارے یا مولانا فضل الرحمٰن یا کوئی اورایسا کرے، یہ سب کچھ کرنے والے ایسے خاردار درخت کا بیج بو رہے ہیں جس کے کانٹے ایک دن خود انہیں ہی چبھیں گے۔ کس قدر مفافقت ہے کہ کیا آپ کے رائے ونڈ محل یا کسی مل کے ایسے ملازم اور اس کے ساتھیوں کو پولیس کے خلاف جلوس نکالنے دیں گے، جسے آپ نے خود ہی غبن کے ’’الزام‘‘ میں پولیس کے حوالے کیا ہو؟۔ مولانا اپنے زیرسایہ کسی مدرسے کے کیشیئرپر الزام لگائیں اور وہ کیشیئرتمام طلبہ کو اکٹھا کر کے ان کی دستار فضیلت تار تار کر دے تو کیا مولانا ایسا کرنے کی اجازت دیں گے؟۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا ذاتی چور تو واقعی چور ہوتا ہے لیکن ہمارے قومی خزانے کا چور سیاستدان ہوتا ہے، باعزت ہوتا ہے، باوقار ہوتا ہے۔ 25مارچ 2021ء پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور بدنصیب دن تھا۔ انتظار کرو کہ اس قانونِ فطرت کا مذاق اڑانے پر ہمیں کڑی سزا کب کیسے اور کس وقت ملنا شروع ہوگی۔