ہمارے لیگل سسٹم میں یہ جو قانونِ شہادت ہے، مجرموں کے لئے اکثر نعمت ثابت ہوتا ہے۔ اِس بات پر ریسرچ ہونی چاہئے کہ قتل کی وارداتوں میں کتنے فیصد سزا ہوتی ہے اور کتنے کیس عدمِ ثبوت کی بنیاد پر داخل دفتر کر دیے جاتے ہیںیا کسی بے گناہ کو سزا مل جاتی ہے۔ میں نے اپنے آج کے کالم میں پاکستان کے نظامِ انصاف پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجئے: ایک سیشن جج کی عدالت میں قتل کا کیس چل رہا تھا۔ ملزمہ شمیم پر الزام تھا کہ اُس نے اپنی سوکن پروین کو زہر دے کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کیس کا مختصر پس منظر یہ تھا کہ زمیندار ظفر خان کی شادی ، زمیندار چوہدری صادق علی کی بیٹی شمیم سے ہوئی تھی۔ جب کئی سال تک ظفر خان اولاد سے محروم رہا تو اُس نے اپنے سسر سے دوسری شادی کی اجازت مانگی جو اُسے اِس شرط پر مل گئی کہ وُہ تین مربع اراضی شمیم کے نام کر دے گا۔ یہ شرط پوری کر کے ظفر خان نے پروین سے شادی کر لی۔ ظفر خان دوسری شادی سے بہت خوش تھا۔ اگرچہ اُس کے گھر میں حکمرانی پہلی بیوی ہی کی تھی۔ دوسری شادی کے تین ایک ماہ بعد پتہ چلا کہ پروین حاملہ ہے۔شمیم نے ایک روز پروین کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ پروین کو ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں پروین دم توڑ گئی۔ ڈاکٹروں نے زہر خورانی کو موت کی وجہ قرار دیا۔پروین کے والد ماسٹر ثناء اللہ نے شمیم کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کروادی۔ شمیم گرفتار ہوگئی۔ پولیس نے پندرہ بیس دن میں مکمل چالان مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا جس میں شمیم کو مجرم ٹھہرا دیا گیا تھا۔ مجسڑیٹ نے چند پیشیوں کے بعد کیس سیشن سپرد کر دیا۔ سر توڑ کوشش کے باوجود شمیم کی ضمانت نہیں ہو سکی تھی۔ وکیل استغاثہ نے بڑی تفصیل سے وہ تمام حالات و واقعات عدالت کو بتائے جو پروین کے قتل کا باعث بنے تھے۔ اِس ضمن میں جج صاحب کا اپنا نقطہ نظر تھا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ عجلت میں فیصلہ کر کے کسی کے ساتھ نا انصافی کے مرتکب ہوں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل مکالمے سے ظاہرہوتا ہے۔ وکیل استغاثہ: یور آنر، میں نے تمام حالات آپ کے گوش گزار کر دیے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ملزمہ شمیم نے ہی پروین کو زہر دیا ہے۔ چنانچہ عدالت سے میری استدعا ہے کہ ملزمہ کو دفعہ 302 کے تحت پھانسی کی سزا دی جائے۔ جج: یہ ایک انسان کی زندگی کا سوال ہے۔ ملزمہ کی پھانسی آپ کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن عدالت کو ہر پہلو ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ وکیل: میں نے ہر پہلو آپ کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ ملزمہ شمیم کے جرم میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ جج: آپ یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ پروین کو کسی اور مرد یا عورت نے زہر دیا ہو؟ وکیل: یور آنر ، ملزمہ شمیم کے علاوہ کسی اور کے پاس قتل کی کوئی وجہ نہیں۔کوئی اور پروین کا دشمن تھا ہی نہیں۔ جج: آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان میں کوئی بھی پروین کا دُشمن نہیں تھا؟ وکیل: آپ اس حقیقت کو بھی مدِ نظر رکھیں کہ مقتولہ پروین نے دم توڑنے سے پہلے کہا تھا کہ مجھے شمیم نے زہر دیا ہے۔ جج: اِس بات کا گواہ کون ہے؟ میرا مطلب ہے اُس نے یہ بات کس سے کی تھی؟ وکیل: کنیزاں بی بی سے ۔ جو اُن کی میڈ سرونٹ ہے۔ جج: ٹھیک ہے۔ ہم کنیزاں بی بی کو بطور گواہ طلب کر لیتے ہیں۔ (تفتیشی افسر سے) آپ اگلی پیشی پر کنیزاں بی بی کو لے کر آئیں۔ تفتیشی افسر: جناب کنیزاں بی بی کہتی ہے کہ اُس نے قطعاً یہ نہیں کہا کہ پروین نے شمیم کا نام لیا تھا۔ وکیل (افسر سے) : لیکن آپ لوگوں نے جو چالان پیش کیا ہے اُس میں کنیزاں بی بی کا بیان درج ہے۔ تفتیشی افسر: میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ کنیزاں بی بی منحرف ہو گئی ہے۔ وکیل : یور آنر، ملازمہ کو ڈرا دھمکا کر بیان بدلنے پر مجبور کر لینا کچھ ایسا مشکل کام تو ہے نہیں۔ ظفر خان ایک بیوی سے تو ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب وُہ دوسری کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔ ویسے بھی ملزمہ شمیم کا والد ایک بااثر زمیندار ہے۔ علاقے کے لوگ اُس سے ڈرتے ہیں۔ جج: لیکن ہم نہیں ڈرتے۔ ہم صرف اِس بات سے ڈرتے ہیںکہ کسی بے گناہ کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ وکیل: مقتولہ کے خاوند ظفر خان کی والدہ نے بھی یہی بیان دیا تھا کہ اُس کی بڑی بہو، چھوٹی بہو کو پسند نہیں کرتی تھی۔ جج: اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جسے آپ پسند نہ کریں اُسے قتل کر دیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو روزانہ لاکھوں لوگ قتل ہوجائیں ۔ ویسے بھی ایک شخص کی دو بیویاں ایک سیج پر ہوتی ہیں لیکن ایک page پر کبھی نہیں ہوتیں۔ وکیل: یور آنر ، تمام حالات اِس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملزمہ شمیم نے مقتولہ کو زہر دیا۔ اِس کیس کی واقعاتی شہادت انتہائی مضبوط ہے ۔ اُس روز گھر میں دونوں بیویوں کے علاوہ صرف ظفر خان کی والدہ اور دو ملازمائیں تھیں۔ سوائے ملزمہ شمیم کے کسی اور کو کیا ضرورت تھی پروین کو زہر دینے کی ؟ جج: آپ یہ فرمائیں زہر کس نے خریدا اور کس سے خریدا؟ کیا ملزمہ شمیم خود زہر خریدنے گئی تھی یا اُس نے کسی اور کو بھیجا تھا؟ آیا یہ زہر سالن میں ملایا گیا تھا۔ چائے میں تھا یا دودھ میں ؟ کیا زہریلی خوراک کسی لیبارٹری میں بھیجی گئی جس کی رپورٹ میں درج ہو کہ فلاں چیز میں زہر کی مقدار پائی گئی ہے۔ وکیلـ : یور آنر، اتنی بڑی مصیبت میں کس کو خیال رہتا ہے کہ اشیائے خورد ونوش کو جمع کر کے کسی لیبارٹری میں بھیجے۔ ظاہر ہے ملزمہ نے زہر دینے کے بعد کوئی نشان نہ چھوڑا ہوگا۔ جج: آپ نے اپنے کیس کی بنیاد مفروضوں پر رکھی ہے۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئیے کہ عدالت میںحقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ اگلی تاریخ پر اُن سوالات کا جواب لے کر آئیں۔ جب تک آپ یہ ثابت نہ کریں گے فلاں شخص نے فلاں وقت ، فلاں شخص سے زہر خریداا ور ملزمہ نے وُہ زہر فلاں چیز میں ملا کر مقتولہ پروین کو دیا، اُس وقت تک کیس کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اُمید ہے کہ آپ اگلی پیشی پر مکمل تیاری کے ساتھ آئیںگے۔ وکیل: یور آنر، آپ کے سوالوں کا دُرست جوا ب تو صرف ملزمہ شمیم ہی دے سکتی ہے۔ لیکن آپ خوب جانتے ہیں کہ مجرم کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتا۔ جج: اگلی تاریخ یاد رکھیں 15 دسمبر ۔ قارئین کرام! ظفر خان اپنی بیوی شمیم اورتیسری بیوی ریحانہ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہے۔ خُدا نے اُسے ریحانہ کے بطن سے اولادِ نرینہ بھی عطا کر دی ہے۔