جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ اعزازصرف مملکت پاکستان کوحاصل ہے کہ اس کا محل وقوع اس کی اونچی پرواز کاضامن ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کے مواقع کے راز تاریک غاروں میں چھپا دیئے جاتے ہیںاورعدم جوابدہ ،غیرشفاف حکومتیں این آر او دینے یا نہ دینے کی بے تکی رٹ لگائے بیٹھے ملک وملت کے تمام اہم مسائل سے عدم توجہی دکھاکر ڈھٹائی کے ساتھ خم ٹھونک کر معاشی نقصان پہنچاتی ہیں۔پاکستان کی سرحدیںمشرق میں بھارت،شمال میں چین ، شمال مغرب میں افغانستان اور مغرب میں ایران سے ملتی ہیںجبکہ ملک کا جنوبی حصہ بحیرہِ عرب سے ملا ہوا ہے۔ پاکستان بحیرہِ عرب کے نیلے پانیوں سے جنوب سے شمال کے قراقرم پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں تک تقریبا ایک ہزار میل پر پھیلا ہوا ہے۔ قراقرم کا پہاڑی سلسلہ دنیا کی انتہائی اونچی چوٹیوں کے بڑے بڑے جھرمٹوں پر مشتمل ہے۔ کل رقبہ کا تقریبا 2 لاکھ 60ہزار مربع کلو میٹر دریائے سندھ اور اس کی پانچ شاخوں کے میدانوں پر مشتمل ہے۔ جنوب مغرب میں وسیع صوبہ بلوچستان واقع ہے۔ جس کا رقبہ 3لاکھ 47ہزار 188 مربع کلو میٹر ہے جو ایک خشک میدانی علاقہ ہے۔ بہت کم آبادی ہے۔ چوتھا صوبہ خیبر پختونخواہ ہے۔ جس کا علاقہ 74 ہزار 521 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ صوبے اونچے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ انتہائی سرسبز وادیوں سے بھی مالا مال ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست جموںوکشمیر سے منسلک علاقے گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر بھی مملکت پاکستان کے زیرانتظام ہیں۔ پاکستان کی درآمدات و برآمدات کی بات کریں توپیٹرولیم اور اس کی پیداوار، غیر برقی مشینری، نقل وحمل کا سامان، کیمیکل، سبزی کا تیل، کیمیکل کھاد، برقی اشیا، دالیں، آٹا، چائے، کاغذ، بورڈ اور ادویات درآمدات ہیں۔جبکہ روٹی، کپڑا، چاول، قالین، سلے سلائے کپڑے، مچھلی، چمڑا، پیٹرولیم کی پیداوار بر آمدات ہیں۔مملکت پاکستان ایک بڑا زرعی ملک ہے۔ یہاں وسیع زرخیز میدان ہیں۔آب پاشی کے لئے نہریں بھی ہیں جو کہ دنیا میں سب سے بڑی ہیں۔ اس تمہیدکوبیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ پاکستان تحفہ الٰہی اورنعمت خداوندی ہے لیکن قائداعظم کے بعد اس مملکت کو ایماندار، غمخوار اورباصلاحیت قیادت مل نہ کی۔جو برسراقتدار آئے وہ سب جھوٹ بولتے رہے ہیں۔اگر اسے قائداعظم جیسی قیادت دستیاب ہوتی تواس کی پرواز نہایت اونچی تھی ۔اخبار کی تنگ دامنی کے باعث آج صرف ایک ہی معاملہ پر بات کریں گے اوروہ ہے پاکستان ،ایران اور ترکی کے ٹرین ٹریک ،یا (ITI) (Istanbul-Tehran-Is lamabad Railway Project اس سہ ملکی ریل منصوبے پر پہلی مرتبہ باہمی رضامندی سن 2009 ء میں سامنے آئی تھی۔لیکن پرعزم قیادت کے فقدان کے باعث یہ پروجیکٹ تشنہ تکمیل ہے ۔یہ پروجیکٹ اتنا سود منداورپاکستان کے لئے فائدہ مند ہے جسے محض الفاظ میں بیان نہیں جاسکتا ہے اس ریل ٹریک کے استوار ہونے سے ان ملکوں کے درمیاں تجارت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تینوں ملکوں کے سیاحوں کی آمد و رفت بھی توقع سے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نقل و حمل کا رابطہ تینوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کرنے میں بھی کلیدی کردار کا حامل ہو سکے گا۔البتہ11جنوری 2021ء کوپاکستانی، ترک اور ایرانی حکومتوں نے سرد خانے میں پڑے ریل لنک پراجیکٹ کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔اس ریلوے ٹریک کو مکمل کرنے پر اس کی کل لمبائی 6 ہزار5 سو کلومیٹرہو گی۔ اس طویل ٹریک میں1 ہزار9 سو50 کلومیٹر کا ٹریک ترکی میں بچھایا جائے گا۔ ایران میں اس ٹریک کی لمبائی2ہزار 6 سو کلو میٹر ہو گی جب کہ پاکستان میں ریلوے ٹریک 1 ہزار 9 سو90 کلو میٹر پر پھیلا ہو گا۔تینوں ملکوں کے درمیان ممکنہ ریل لنک میں شامل استنبول، تہران اور اسلام آباد کے مقامات شامل ہیں۔سہ رکنی ریلوے کابہت بڑا پروجیکٹ چینی تعاون سے تعمیر کیے جانے والے ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو‘‘ کا حصہ تو نہیں ہے لیکن انجام کار یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔آئی ٹی آئی کے عظیم منصوبے پر 400 بلین ڈالر سے زائد کی لاگت آ سکتی ہے۔ اس میں چین کے شامل ہونے سے چین کے’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو ‘‘کے بہت وسیع پروجیکٹ سے بیجنگ حکومت خطے میں اپنی رابطہ کاری کو مزید وسعت دے سکتی ہے۔اس عظیم پروجیکٹ کی تکمیل سے چین سمیت دیگر تینوں ممالک میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔