چھ ستمبر یوم دفاع کی پروقار تقریب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اب پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ نہیں لڑے گا۔یہ بیان بظاہر ایک سیاسی لیڈر کی ماضی میں کی گئی تقریروں کا تسلسل لگتاہے لیکن حقیقت میں یہ وہ سبق ہے جو پاکستان نے سات دہائیوں کے تجربات اور مشاہدے سے حاصل کیا ۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستانہ تعلقات اور دفاعی معاہدوں کی اساس یہ تھی کہ پاکستان کیمونزم بلکہ سابق سویت یونین کے خلاف عالمی اور مغربی اتحاد کا سرگرم حصہ ہوگا۔ اگرچہ پاکستان اس اتحاد میںبخوشی شامل ہوا لیکن اس کا اصل مقصد مغربی نہیں بلکہ مشرقی سرحد کا دفاع تھا۔وہ ہتھیار اور عسکری تربیت حاصل کرکے بھارت کے خلاف ایک ناقابل تسخیر دفاعی حصار کھڑا کرنا چاہتاتھا۔ امریکہ اور پاکستان دومختلف سمتوں کے مسافر تھے لیکن سوویت یونین کے مشترکہ خطرے، بھارت کے ساتھ ماسکو کی گہری شراکت داری اور بعدازاں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے نے پاکستان کو امریکہ کی جھولی میں گرادیا۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد تعلقات میں سردمہری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرحلے پر امریکہ پاکستان کو دہشت گرد ممالک کی فہرست میں شامل کرنے والا تھا۔ توقعات کے برعکس امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے پرپاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ نائن الیون کے بعد بھی دونوں ممالک ایک ایسی جنگ میں شراکت دار بن گئے جہاں دونوں کی ترجیحات اور قومی مفادات میں گہرا تفاوت پایاجاتاتھا۔ امریکہ بھارت کے افغانستان میں کردار کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتاہے بلکہ اس کے ساتھ گہرے تزویراتی تعلقات بھی استوار کرچکاہے۔افغان سرزمین پاکستا ن کے خلاف مسلسل استعمال ہوئی لیکن امریکی اور اتحادی فوجیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ کشمیر کے مسئلہ کے حل میں تعاون تو درکنار وہ بھارت کا نقطہ نظر پاکستان پر مسلط کرنے پر مضررہا۔ گزشتہ دس بارہ برسوں میں پاکستان نے بتدریج اپنا اسٹرٹیجک اور عالمی ویو تبدیل کیا۔دوستی اور دشمنی کے پیمانے کو بدلا۔ روس کے ساتھ تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ کو رفتہ رفتہ کم اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے باہمی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کا عزم کیا۔ دونوں ممالک کی فوج اور دفاعی اداروں کے مابین اعتماد کی بحالی کے لیے متعدد قابل ذکر اقدامات کیے گئے ۔جنرل پرویزمشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور اس سال اپریل میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے ماسکوکادورہ کیا۔روسی قیادت نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ پاکستان کے کردار کی مسلسل تحسین بھی کی۔ طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنانے کے حوالے سے دونوں ممالک میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر پاکستانی نقطہ نظر کو روس نے زبردست پذیرائی بخشی۔ افغانستان میں داعش کے ابھرتے ہوئے خطرات نے بھی روس ، ایران اور وسطیٰ ایشیائی ممالک کو پاکستان کے ساتھ تعاون اور مفاہمت پر آمادہ کیا تاکہ داعش کے خطرے کا مشترکہ طور پر مقابلہ کیاجاسکے۔روس، ایران اور پاکستان کا خیال ہے کہ داعش کے ظہوراور مؤثر قوت بننے کے پس منظر میں مغربی ممالک کا ہاتھ ہے۔ شواہد بھی پیش کیے جاتے ہیں کہ ایک منظم منصوبے کے تحت داعش کو عراق اور شام سے براہ راست افغانستان پہنچایاگیاتاکہ طالبان کی قوت کو کمزور کرکے اسے وسطی ایشیائی ریاستوں، پاکستان اور ایران کے خلاف استعمال کیاجاسکے۔ چنانچہ اسی خطرے کے پس منظر میں جولائی کے دورے ہفتے میں اسلام آبادمیں روس، چین، ایران اور پاکستان کے خفیہ اداروں کا ایک غیر معمولی سربراہ اجلاس ہوا جس میں ان ممالک نے داعش کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اور اطلاعات کے تبادلے پر غوروفکرکیا۔ روس طالبان کی لیڈرشپ کے ساتھ مذاکرات کا عمل بھی شروع کرچکا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گزشتہ ماہ طالبان کے ایک وفد نے ازبکستان کا دورہ کیا ۔سفارتی ذرائع کے مطابق یہ دورہ روس اور پاکستان کی باہمی رضامندی کے بغیر ممکن نہ تھا۔روس اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی گرم جوشی کی بدولت پاکستان کی مغربی سرحد پر گزشتہ ستر برسوں سے درپیش روسی خطرہ کا مفروضہ نہ صرف دم توڑچکا ہے بلکہ روسی حوصلہ افزائی سے وسطی ایشیائی ممالک میں پاکستان سے تعاون اور خیرسگالی کا ایک جذبہ پایاجاتاہے۔وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے دفاعی اور خفیہ اطلاعات کے تبادلے کا ایک میکنزم بھی ترتیب پاچکا ہے۔دفاعی ہتھیاروں کی خرید وفروخت کے علاوہ روسی ملٹری اکیڈمی میں پاکستانی افسروں کی تربیت کا آغاز بھی ہوچکاہے۔ . ایران اور ترکی جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ ترکی امریکی حلیف ہی نہیں بلکہ گہرااسٹرٹیجک پارٹنر بھی تھا اب امریکہ سے نہ صرف دور ہوچکابلکہ روس اور ایران کے ساتھ مسلسل سفارتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں لگاہوا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران جو کل تک طالبان کے خلاف ایک سخت گیر موقف رکھتاتھا اب امریکی اس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اور روس طالبان کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ ایران جو کل تک بھارت کے ساتھ گہری قربت کا دعویٰ دار تھا اب بھارت اور امریکہ کے درمیان فروغ پذیر تعلقات سے سخت پریشان اور متبادل حلیفوں کی تلاش میں ہے۔ بلکہ کہاجاتاہے کہ آج کل افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور ایران دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ نمل یونیورسٹی کے ڈاکٹر وقاض علی کوثر چند دن پہلے ایک ماہ کی فیلو شپ کے بعد امریکہ سے لوٹے توانہوں نے بتایا کہ امریکی اداروں میں مسلسل بحث ومباحثہ جاری ہے کہ کس طرح چین کے مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ حال ہی میں کانگریس اور سینٹ کے ارکان نے بھی اس موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ یغور کی علیحدگی پسند تنظیم کا جھنڈ ا بھی واشنگٹن میں دیکھاجاسکتاہے۔ مغرب جب کسی ملک کو نکیل ڈالنے کا عمل شروع کرتاہے تو پہلے مرحلے میں اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے بروئے کار آتے ہیں۔ علمی ادارے جنہیں تھینک ٹینک کہاجاتاہے وہ سیناریو پیش کرتے ہیں۔اس کے بعد انتظامیہ یا سیاسی لیڈر شپ کانگریس کو استعمال کرتی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ ایسے ممالک کو دنیا میں اچھوت بنادیا جاتاہے۔چین کو بھی واشنگٹن میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔یوںچین بھی امریکی رویہ سے کبیدہ خاطر ہے اور امریکہ کی سربراہی میں قائم عالمی نظام میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے جنوبی اور وسطیٰ ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب ہونے اور مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے پر مجبور کیا۔ اس خطے میں بھارت اور افغانستان کے سوا کوئی ملک ایسا نہیں جو امریکہ کے ساتھ دوستی کا علم اٹھاتا ہو۔ پاکستان کا بھی مکو ٹھپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ حال ہی میں امریکہ نے عندیہ دیا کہ وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرض فراہم کرنے کی حمایت نہیں کرے گا۔یہ ہے وہ پس منظر جس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اب پاکستان مزید کسی ملک کی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے بعد یہ بیان اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ پاکستان مشکلات کا مقابلہ کرنے اور امریکی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کرچکاہے ۔اس فیصلے میں اسے علاقائی ممالک کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔علاوہ ازیں سول ملٹری لیڈرشپ میں بھی اس حوالے سے مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔