کسی ملک کا دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنااور یہ دیکھنا کہ یہ تعلقات کس طرح کے ہونے چاہیئں ۔ خارجہ پالیسی کہلاتا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی ۔ دوسرے ملکوں سے تعلقات استوار کرنے۔ بگڑے تعلقات سنوارنے اور باہمی تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی بہتر اور دور رس ہو تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ناقص خارجہ پالیسی کا حامل ملک دنیا بھر سے کٹ جاتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں نہ تو کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاصل ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔ پاکستان کی معیشت یورپی یونین کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات اور متعدد ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی اتحاد اور معاہدوں کیساتھ دنیا میں مربوط ہے۔ پاکستان جغرافیائی سیاسی لحاظ سے اہم مقام رکھتا ہے ۔ افغانستان ،چین، بھارت اور ایران ہمسائے میں ہیں ۔ دنیا کی سمندری تیل کی سپلائی لائنوں کی راہداری پر ہے ۔ گیس اور تیل سے مالا مال مشرق وسطی اور دنیا کے آبادی کے مراکز کے درمیان واقع ہے۔ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ اوربالخصوص عوامی جمہوریہ چین اور عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ایک رکن ہے ۔ جسے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم غیر نیٹو اتحادی اور آئی ایم سی ٹی سی کے بانی ممبروں میں شامل کیا ہے۔اگست 1947 ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد ایران پہلا ملک تھا جس نے اس کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کیا۔ امریکا پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا غیر مسلم ملک تھا اور فرانس پہلا ملک تھا جہاں پاکستان کا جھنڈا بلند ہوا تھا۔سعودی عرب اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مثالی بنایا گیا جب کہ افغان امن عمل اور سعودی ایران تنازع میں پاکستان کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ ’’پاکستان کو خارجی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور اگر کسی ملک کو امن و استحکام کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان ہے۔‘‘پہلی مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سابق کرکٹر عمران خان کے لیے ایک واضح خارجہ پالیسی تشکیل دینا آسان نہ تھاکیونکہ پاکستان پر خطے میں ’انتشار پھیلانے والے شدت پسند عناصر کی سرپرستی‘ کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی روز نت نئی کامیابیاں حاصل کررہی ہیں۔ اس کا سہرا وزیراعظم کے سر جاتا ہے۔ انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے پھر ان کی نیک نامی سب کے سامنے ہے۔دنیا ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی دنیا ہی بدل گئی۔ اگر وزیراعظم نے خود سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے لیڈروں کو اپنا ہمنوا بنایا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورہ کابل، تہران، بیجنگ اور ماسکو کے دوروں میں کامیابی حاصل کی۔ چین نے تو پاکستان کی افغان پالیسی کی کھل کر حمایت کردی۔ روس میں بھی وزیر خارجہ کی ملاقاتیں بہت مثبت ثابت ہوئیں اور وہاں سے بھی ہمیں بہترین نتائج کی توقع ہے۔ اسی خارجہ پالیسی کا نتیجہ حال ہی میں پاک روس مشترکہ جنگی مشقیں ہیں۔بھارت نے پاکستان کو دنیا بھر میں اکیلا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر وزیراعظم عمران خان کے بہترین طرز حکومت اور خارجہ پالیسی کے باعث بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔خارجہ پالیسی ہی کی وجہ سے کشمیریوں کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنے اور عالمی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر مظلوم کشمیریوں کا سفیر بن کر دنیا بھر میں آواز بلند کی۔ بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف مودی کا فاسشٹ نظریہ عالمی سطح پر بے نقاب کیا۔پاکستان کے لیے 2 معاملات نہایت اہمیت کے حامل ہیں، ایک تو یہ کہ پاکستان کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی پیش رفت کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونی چاہیے اور دوسرا یہ کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بدترین صورتحال میں بہتری لائے جائے۔ جبکہ بھارت کہتا ہے کہ وہاں ہونے والی ‘دہشتگردی‘ کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔معنی خیز مذاکرات کے لیے ان اہم مسائل کا ایسا حل ڈھونڈنا ہوگا جس پر دونوں مطمئن ہوں۔ پائیدار مذاکراتی مرحلے کے لیے مشترکہ جواز کو ڈھونڈنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت ایک حقیقت ہے۔ تاہم بلوچستا ن کامسئلہ‘ ہندوستان کا پیدا کردہے۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ دہائیوں پر مبنی بْری اداریاتی گورنس اور استحصال ہے۔ پاکستان کو سفری، رابطہ کاری، اعتماد اور سیکیورٹی بلڈنگ (جس میں ریگولر جوہری اور پانی کی مینجمنٹ ہے) جیسے معاملات کے حوالے سے بات چیت اور تجاویز کی پیش کش کرنی چاہیے۔ جواب کے لیے انڈیا کو وقت لینے دیں۔ پاکستان اپنی مستقل مزاجی اور معقول پسندی کا دامن تھامے رکھنے سے کبھی ہار نہیں سکتا۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کی کامیابی ہے کہ چین اور روس جیسے بڑے ممالک اسلام آباد کے نکتہ نظر سے متفق ہیں بلکہ یہ تو قدرت کا انعام ہی سمجھیں کہ روس، امریکا تعلقات آج کل اچھے نہیں ہیں۔ پاک افغانستان تعلقات کے معاملہ میں افغانستان کے اندرونی امن معاہدے اور پاک افغانستان بارڈر کو تجارت کے لئے کھولنے کی طرف حالیہ پیشرفت سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلقات میں ممکنہ بہتری آرہی ہے۔ مثال کے طور پر، افغانستان تک کھاد منتقل کرنے والے جہاز اب گوادر پورٹ پر رک سکتے ہیں۔ تاہم، امن معاہدے کے بعد بھی، افغانستان کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، مثلاً، اگر افغانستان بھارت خفیہ اداروں کی چالبازی کا شکار ہوجاتا ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مفادات کیلئے ایک پرامن افغانستان کو فروغ دینے اور اسلامی عسکریت پسندی سے نمٹنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو مزید نقصان نہ ہو۔