معزز قارئین!۔ آئین کے مطابق ، ہمارے آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال ہوتی ہے لیکن، مقتدر صدرِ مملکت یا منتخب وزیراعظم کو اُن کی مدتِ ملازمت میں مزید توسیع کا اختیار حاصل ہے ، چنانچہ 19 اگست کو ، وزیراعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کردِی ہے ۔ موصوف 29 نومبر 2022 ء کو ریٹائر ہو جائیں گے ۔ مَیں نے 26 نومبر 2016ء کو الیکٹرانک میڈیا پر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ( کمان کی ) چھڑی جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کرنے کا منظر دیکھا ۔اِس پر یکم دسمبر 2016ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ آرمی چیف کی چھڑی ۔ مودی کو تڑی؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ جنرل راحیل شریف کے پاس آرمی چیف کی حیثیت سے (کمان کی ) چھڑی ایک امانت تھی اور اب یہ امانت جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہاتھ میں ہے ، مَیں تو اِس چھڑی کو ، پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے لئے ’’ تڑی‘‘ ( Warning) سمجھتا ہُوں ‘‘۔ اللہ کرے کہ ’’ میرا یہ خیال اور سوچ درست ثابت ہو ‘‘ ۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ( کمان کی چھڑی ) کو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف استعمال کر کے اپنے منصب کا حق ادا کردِیا ہے ۔ جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے آرمی چیف تھے کہ ’’ جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ اور دس دِن پہلے 18 دسمبر 2015ء کو ، حکومت پاکستان کی طرف سے قومی خدمت پر ملنے والے اپنے دو قیمتی پلاٹ ( جن کی مالیت اربوں روپے ہے ) دہشت گردوں کے خلاف جنگ (جہاد) میں شہید ہونے والے فوجیوں کے ’’شہدا فنڈ ‘‘کے لئے وقف کردئیے تھے اورجنہیں 8 جنوری 2016ء کو امریکی ادارے ۔’’ A.P.C. News‘‘ نے دُنیا کے دس "Generals" میں سے بہترین جنرل قرار دِیا تھا ۔ جنرل راحیل شریف کی طرح جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف اپنے فرائض منصبی انتہائی دیانت داری اور جرأت سے انجام دئیے۔ گذشتہ ماہ جولائی 2019ء میں وزیراعظم عمران خان کے تین روزہ دورۂ امریکہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں دوسری اہم شخصیات کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شامل تھے ۔ جنرل راحیل شریف کی طرح ، جنرل قمر باجوہ بھی مقبوضہ کشمیر کے حُریت پسند عوام کی حمایت اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر تے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ معزز قارئین!۔ جون 1992ء میں میرے ایک کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ فوج ۔ ریاست کا پانچواں ستون!‘‘۔ وطن عزیز میں اِس طرح کی صورت حال کئی بار پیدا ہو چکی ہے اور جب ریاست کا پانچواں ستون ؔغالب آ جائے تو ، ریاست کے معروف چار وں ستون ( Four Pillers) ۔ ’’Legislature‘‘ (پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( عدلیہ) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) اُس کے تابع ہو جاتے ہیں ‘‘۔ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء سے 18 اگست 2008ء تک صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار میں رہے ، پھر صدر آصف زرداری کے دَور میں جنرل اشفاق پرویز کیانی 29 نومبر 2007ء سے 29 نومبر 2013ء (6 سال ) تک آرمی چیف رہے ۔ اُن کے بعد جنرل راحیل شریف (تین سال تک ) صدر زرداری نے 9 ستمبر 2008ء کو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی خود کلامی کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر کو 30 سال کے لئے "Freeze" (منجمد) کردیں ۔ اِس مقصد کے حصول کے لئے صدر زرداری نے امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد 5 جون 2013ء کو میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہُوئے تو ، اُنہوں نے بھی فضل اُلرحمن صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا ۔ مسئلہ کشمیر منجمد ہی رہا۔ یکم اگست 2017ء سے 31 مئی 2018ء تک شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے اور یکم جون 2018ء سے 18 اگست 2018ء تک جسٹس (ر) ناصر اُلملک نگران وزیراعظم اور اُن کے بعد 18 اگست 2018ء سے اب تک جناب عمران خان منتخب وزیراعظم۔ اِس دَوران آرمی چیف کی (کمان) چھڑی جنرل اشفاق پرویز کیانی ،جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہاتھ میں رہی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ’’ اِن تینوں "Generls" نے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ، خاص طور پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے سامنے پاک فوج کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا تو کِیا لیکن، پاک فوج کو (فی الحقیقت ) ریاست کا پانچواں ستون نہیں بننے دِیا لیکن، کیا کِیا جائے کہ ’’9 ستمبر2008ء سے اب تک ایٹمی قوت پاکستان کے 60 فی صد عوام مفلوک اُلحال ہیں ‘‘ ۔ مسئلہ کشمیر فی الحال حل نہیں ہُوا اور 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر پر مکمل قبضہ کرنے کے لئے بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی نے جو کچھ کِیا اُس کے بعد نہ صِرف ہماری وزارتِ خارجہ بلکہ ، وزارتِ دفاع ( خاص طور پر آرمی چیف ) کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں اور جنابِ قمر جاوید باجوہ براہ راست مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے دفاع میں بھارتی وزیراعظم، وزیر دفاع اور بھارتی فوج کو للکارنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ معزز قارئین!۔ ’’کشمیر ‘‘ کے بارے میں مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہہ دِیا تھا کہ … آج وہ کشمیر ہے، محکوم و مجبور و فقیر! کل جِسے، اہلِ نظر کہتے تھے، ایرانِ صغِیر! آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دِماغ! ہے کہاں روزِ مکافات اے خْدائے دیر گِیر! …O… لیکن، کیا کِیا جائے کہ ’’ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے یہ اعلان تو کردِیا تھا کہ ’’ ہم (اہل پاکستان) کشمیریوں کی آزادی کے لئے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے ‘‘ لیکن، اُنہوں نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، و صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کی حیثیت سے کشمیری عوام کے لئے کچھ نہیں کِیا نہ ہی دو بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والی اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور روحانی فرزند صدر آصف زرداری نے ۔ پھر مودی سے ’’گُوڑھے یار ‘‘ وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کے لوگ کیا کرتے ؟۔ جہاں تک آرمی چیف کا تعلق ہے ، آئین کے مطابق وہ تو، ریاست ِ پاکستان کے مقتدر صدر یا منتخب وزیراعظم کے احکامات کے تابع ہیں اور اُن کی فوج بھی۔ معزز قارئین!۔ کلیم ۔ؔ حضرت موسیٰ ؑکا لقب ہے اور علاّمہ اقبالؒ کے ایک شعری مجموعے کا نام ہے ’’ ضربِ کلیم‘‘۔ اُس کی ابتداء میں علاّمہ صاحبؒ نے جو کچھ کہا وہ موجودہ "A.P.C" میں شامل ہر سیاسی جماعت کے قائد پر منطبق ہوتا ہے ۔ علاّمہ صاحبؒ نے فرمایا کہ … نہیں مقام کی خُو گر طبیعت ِ آزاد! ہَوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر! ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے! خودی میں ڈُوب کے ضربِ کلیم پیدا کر! …O… ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ کے عصا ؔ کی چوٹ سے (مصر کا ) دریائے نیل دو ٹکڑے ہو گیا تھا اور جس نے اعجازِ موسیٰ ؑ سے اژدھا بن کر ( فرعون کے ) جادوگروں کے سانپوں کو فرعون کے دربار میں نگل لِیا تھا ۔ ضربِ کلیمی سے مراد ہے ’’معجزانہ طاقت / خدائی طاقت ‘‘ ۔ علاّمہ اقبالؒ کی ایک نظم کے دو شعر یوں ہیں … جُرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا! ہیں بحرِ خودی میں ، ابھی پوشیدہ جزیرے ! …O… کھلتے نہیں ، اِس قُلزم ِ خاموش کے اسرار! جب تک تو اُسے ضربِ کلیمی سے نہ چیرے! …O… معزز قارئین!۔مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی حمایت میں پاکستانی قوم نے جس جوش و جذبہ کا مظاہرہ کِیا ہے اُس کی روشنی میں ، مَیں تو ، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو بھارت کے خلاف پاکستان کی ’’ضربِ کلیمی‘‘ ہی سمجھتا ہُوں ۔ …O…