پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے ۔مسلم لیگ ن کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میںارسطوئے زماں بقلم خود احسن اقبال فرماتے ہیں مسلم لیگ پاکستان کی ماں ہے۔ مفکر ملت نے یہ نہیں بتایا کہ اس ناطے سے وہ خود پاکستان کے مامے ہوئے یا خالو ؟ حیرت ہوتی ہے، کرم فرمائوں کے بال سفید ہو گئے لیکن بات کہنے کا ڈھنگ نہ آیا ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ سمجھئے کہ حوادث زمانہ نے چھوٹوں کو معتبر کر دیا ، رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی ، بھلے وقتوں میںجن باتوں پر کسی اچھے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جاتا تھا اب وہی باتیں اہتمام سے نشر کی جاتی ہیں اور شائع ہوتی ہیں۔اوسط یا اس سے کچھ کم درجے کے لوگ اب کمال رعونت اور تکبر کے ساتھ اس قوم سے یوں ہمکلام ہوتے ہیں جیسے کوئی عبقری اپنے شاگردوں کے سامنے علم کے دریا بہا رہا ہو۔ عالم یہ ہے کہ مُلا نصیر الدین بھی زندہ ہو جائے تو کانوں کا ہاتھ لگاتا ہوا واپس اپنے گائوں کو بھاگے کہ اس بستی میں میرا کیا کام، یہاں تو لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند۔ بچپن سے یہی سنتے آئے تھے کہ دھرتی ماں ہو تی ہے۔ یہی پڑھا کہ زمین ماں کی طرح ہوتی ہے۔اسے مادر وطن کہتے ہیں۔پروین شاکر نے کہا تھا: ’’ بوجھ اٹھائے ہوئے پھرتی ہے ہمارا کب تک اے زمیں ماں ! تری یہ عمر تو آرام کی تھی‘‘ اب مگر احسن اقبال تُل گئے ہیں کہ پورا بیانیہ ہی بدل دیں۔ اقبال ؒ کے بعد اب چاند ماری کا نیا میدان پاکستان ہے۔مسلم لیگ یعنی ن لیگ تو ہو گئی پاکستان کی ماں۔ اہل دربار میں سے اب کوئی اٹھے اور نواز شریف کو بابائے قوم اور مریم نواز کو مادر ملت قرار دے ڈالے۔ کاغذی کارروائی تو وہ پہلے ہی کر چکے۔ اب ان کا یوم پیدائش بھی پچیس دسمبر ہے۔ یہ کامیاب واردات غالبا اس لیے ڈالی گئی کہ قائد اعظم ثانی بقلم خودکو قائد اعظم سے اورکوئی نسبت تو ہے نہیں کم از کم یوم پیدائش ہی ایک جیسا ہو جائے۔جب نواز شریف نئے نئے پچیس دسمبر کو پیدا ہوئے تو ایک مسلم لیگی رہنما سے میں نے سوال کیا ۔ وہ چونکہ اس وقت مسلم لیگ ن کے خاصے سینئر رہنما بن چکے اس لیے اس کا نام لینا مناسب نہیں ، انہوں نے کہا اللہ کا شکر کرو کہ اگر تبدیل بھی کی ہے تو قائد اعظم ثانی نے صرف اپنی پیدائش کی تاریخ تبدیل کی ہے اگر وہ کہ دیتے کہ شہباز شریف 9 نومبر اور حمزہ شہباز 14 اگست کو پیدا ہوئے تھے تو آپ کیا کر لیتے؟ نواز شریف کی مسلم لیگ کو قائد اعظم کی مسلم لیگ سے کیا نسبت؟ کہاں حضرت قائد اعظم ؒ جیسا اجلا نفیس اور شائستہ انسان جس نے خاندان کے کسی ایک فرد کو سرکاری منصب دینا گوارا نہ کیا اور کہاں یہ کریانہ سٹور قسم کا طرز سیاست کہ صرف کاسہ لیس درباریوں پر ہی نوازشات نہیں ہوئیں اور پورا ٹبر ہی ایوان اقتدار میں داخل نہیں ہوا بلکہ مسلم لیگ بھی نون ہو گئی۔بات جمہوریت کی کرتے ہیں لیکن مزاج کی آمریت دیکھیے کہ سیاسی جماعتوں کے ناموں پر بھی اپنی مہر لگا رکھی ہے۔علماء کی جمعیت ہے مگر وہ ف ہے۔ اور مسلم لیگ ہے لیکن وہ ن ہے۔ یہ جملہ حقوق محفوظ قسم کی کاروباری فکر اگر اب تاریخ پاکستان پر ہی شب خون مارنا چاہے تو اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ تحریک پاکستان اور اس وقت کی مسلم لیگ پوری قوم کا اثاثہ ہے۔ قائد اعظم کی مسلم لیگ کی جدوجہد ساری قوم کا اجتماعی ورثہ ہے۔کوئی پی پی پی کا ہے یا جماعت اسلامی کا یا پی ٹی آئی کا ، قائد اعظم کی مسلم لیگ اس کی مسلم لیگ ہے۔قائد اعظم کی مسلم لیگ کی تاریخ ساری قوم کی تاریخ ہے۔ مادر ملت فاطمہ جناح کی توہین کرنے والوں کی اولاد کو وفاقی کابینہ میں لا بٹھانے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ صرف ان کا حق ہے تو انہیں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کر نے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔کہاں قائد اعظم کی مسلم لیگ اور کہاں ن اور ق لیگ۔ کوئی ج لیگ ہویا گ لیگ ،لام لیگ ہو یا نون لیگ ، کسی کو بھی قائد اعظم کی مسلم لیگ سے کوئی نسبت نہیں۔حتی کہ یہ باہم اتحاد بھی کر لیں تو انہیں قائد اعظم کی مسلم لیگ کا وارث نہیںسمجھا جا سکتا۔ شکست نے شاید ان کے اعصاب کو چٹخ دیا ہے اور انہیں معلوم نہیں یہ کیا کہہ رہے ہیں۔پنجاب اسمبلی میں سپیکر کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بھی جب پرویز الہی لے اڑے تو سعد رفیق اور حمزہ شہباز کے چہروں پر حیرتوں کا ایک جہان آباد ہوتا ساری قوم نے دیکھا۔لوہے کے یہ چنے پرویز الہی نے کھڑے کھڑے چبا ڈالے بلکہ نگل کر ہضم بھی کر لیے۔عظمی بخاری نے فرمایا: شاید ہمارے نمک میں کوئی کمی تھی۔عظمی بخاری تو خود پہلے پیپلز پارٹی میں ہوا کرتی تھیں۔کیا وہ رہنمائی فرمائیں گی کہ پیپلز پارٹی کے نمک میں کیا آیوڈین کی کوئی کمی رہ گئی تھی جو آپ نے اسے چھوڑ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار فرما لی؟ پاکستان کے چاچے مامے بننے کے خواہشمندوں کو معلوم ہونا چاہیے آپ کی پارٹی پاکستان کی ماں نہیں مجرم ہے۔ اتنی بار اس جماعت کو اقتدار ملا اس نے اس ملک کے لیے کیا کیا؟ ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ادارے برباد ہو چکے اور معیشت کا ستیا ناس ہو چکا۔کیا مائیں ایسا کرتی ہیںجو آپ لوگوں نے اس ملک کے ساتھ کیا؟ ایسا سلوک تو ڈائن بھی نہیں کرتی۔ڈائن کے بارے میں بھی سن رکھا ہے کہ سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔پاکستان کی پوری تاریخ میں جتنا قرض لیا گیا قریب قریب اتنا ہی قرض ن لیگ کی حکومت نے پانچ سالوں میں لے لیا۔ دنیا حیران ہے کہ اتنا قرض پاکستان نے لیا ، اس کا استعمال کہاں کیا؟ غیر پیداواری منصوبوں میں پیسہ برباد کر کے اپنے کاسہ لیسوں کی سیاست کو چمکانے کی کوشش کی گئی۔ ملک غربت سے دوچار ہے اور ان رنگیلوں کی حکومت کے کمالات کا یہ عالم ہے کہ ہر روز اسلام آبادمیٹرو کو قریبا 80لاکھ کی سبسڈی دینا پڑ رہی ہے۔ ترکی کی کرنسی چھ لیرا فی ڈالر تک پہنچی ہے اور طیب اردوان میں اپنی قوم میں بجلیاں بھر دی ہیں کہ ہم مقابلہ کریں گے۔استنبول کا یہ سلطان دنیا کی امپائر کو چیلنج کر رہا ہے ۔آپ نے کیا کیا؟ روپے کا ستیاناس کروا دیا۔آپ کے ذاتی کاروبار ترقی کرتے رہے اور قومی ادارے تباہ ہوتے رہے۔ ذاتی وفاداروں کو ریاستی اداروں پر مسلط کیا اور ریاست کے ملازموں کو ذاتی غلام بنایا اور پھر ان پر نواز شات کے دریا بہا دیے۔ سماج کی جڑوں میں کرپشن انڈیل دی۔جس ادارے کو اٹھا لیا جائے تباہی کی داستانیں رقم ہو چکی ہیں۔ آپ بہت چالاک ہوں گے پروفیسر صاحب ، یہ قوم مگر جاہل نہیں۔