سیاسی نعرہ بازی یا نعرہ فروشی کے اس موجودہ دور میں اپنے محسنوں کی قربانیوں اور وطن کے لیے لہو دینیوالے وفا پیکروں کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ سرحدوں کی حفاظت ہو یا دہشت گردوں کا اندرونی خلفشار ، سیلاب کی تباہ کاری سے قیامت صغریٰ برپا ہو یا زلزلوں کی آفت یا برف پوش پہاڑوں میں پھنسے ہوئے کوہ پیماؤں کو ایمرجنسی میں بچانے کا مشن ہمارے یہ جان نثار جان ہتھیلی پر رکھ کر اس مشن کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ میں جب اپنی مسلح افواج کے کردار پر نظر دوڑاتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے کتنے ہی عظیم سپوتوں کے چہرے گھومنے لگتے ہیں سیاچن کا محاذ ہو یا کارگل کی چوٹیاں ہوں، وزیرستان کے معرکے ہوں یا بلوچستان میں دہشتگردی کیخلاف مہمات ہوں ہر جگہ ہمارے یہ جیالے سر پر کفن باندھے پیش پیش ہوتے ہیں۔ کراچی شہر کی رونقوں کی دوبارہ بحالی میں بھی انہوں نے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا کراچی شہر جو یرغمال بنا ہوا تھا لسانی فسادات، بوری بند لاشوں اور حادثات کی وجہ سے یہ شہر تو شہر آشوب بن چکا تھا اس شہر کو دوبارہ معمول پر لانے کیلئے مسلح افواج نے اہم کردار ادا کیا۔ وادی سوات میں جب دہشتگردوں نے ڈیرے ڈالے وہاں بھی ریاست کی عملداری کو ممکن بنایا گیا ۔ ریاست کی رٹ قائم ہوئی معرکوں کی ایک لمبی تفصیل ہے بہادروں نے جموں وکشمیر کی لائن آف کنٹرول کے محاذ پر فقیدالمثال قربانیاں رقم کیں اور اپنی پوری پوری جوانیاں لوٹا دیں ہیںافواج پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ کشمیر سے محبت ان کے خون میںشامل ہے۔ آج جب پورے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں لوگ مررہے ہیں بے سرو سامانی کا عالم ہے اور موجودہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو پارہی ، تباہ حال عوام کے سروں سے چھت بھی غائب ہوگئی ہے اور بیش بہا مالی اور جانی نقصان ہوا ہے وہ امداد کی راہ دیکھ رہے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اس موجودہ سیلابی آفت زدہ علاقوں میں بھی ہماری فوجی کمانڈ نے ملک گیر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے۔ مصیبت زدہ افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے ان کے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ایسے حالات میں جبکہ ملک میںایمرجنسی کی صورتحال ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس ایمرجنسی صورتحال اور لوگوں کی مشکلات کی پرواہ نہیں ہے۔ موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پریس کانفرنسوں کے ذریعے یہ بیانیہ متعارف کروا رہے ہیں کہ عمران خان کو سازش کے تحت نہیں نکالا گیا ہے بلکہ سازش کے تحت لایا گیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاقتوروں کے پاس تو عقل ہی نہیں ہے اور جو عقلمند ہیں انکے پاس تو طاقت ہی نہیں ہے۔ اس قسم کی غیر حقیقت پسندانہ گفتگو لایعنی اور دھمکی آمیز ہے ۔ اس ساری گفتگو میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور مرتی ہوئی عوام کا کوئی ذکر تک نہیں۔ ملک کے اس قدر دگرگوں اور مخدوش حالات میں مخاصمانہ سیاست ناقابل فہم اور ملک کے ساتھ دشمنی کے زمرے میں لگتی ہے۔ اس سے ایک ہی بات اخذ کی جاسکتی ہے ان سیاسی شعبدہ بازوں نے عوام کے مسائل اور مشکلات کو بلائے طاق رکھ کر سارا زور اس پر لگا رکھا ہے کہ اپنے سیاسی حریف عمران خان کو کس طریقے سے سیاست سے ناک آوٹ کرنا ہے اب الیکشن کمشن پر زور دیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے تاکہ پوری پارٹی ہی ختم کی جا سکے اور اپنی اقتدار کی کرسی کو پکا کرلیا جائے۔ جبکہ خود تو پورے بھان متی کے کْنبے کے پاس عوام کو دینے اور سمجھانے کے لئے کوئی مقبول بیانیہ سرے سے ہے ہی نہیں ہے بقول شاعر: گم جس میں ہوا کرتا تھا افاق وہ مومن مینڈک کی طرح اب کسی تالاب میں گْم ہے کالم کو ختم کرنے سے پہلے اپنے سپہ سالارکا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال و مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ممالک کے ساتھ رابطہ کیا اور ملک کی ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی حالانکہ یہ کام حکومت کا ہے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہیں لیکن شہباز شریف وزیراعظم کا حال اس طرح کا ہے کہ ان کے اپنے مسائل کچھ اس طرح کے ہیں کہ ایک طرف بیٹے حمزہ شہباز کی کرسی چھن جانے کا غم دوسری جانب بڑے بھائی کی طرف سے سر زنش تیسری اتحادیوں کی جانب سے اندر اندر سے بلیک میلنگ اور دھینگا مشتی میں وزیراعظم اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔ میرے لئے سات سمندر دور بیٹھے ہوئے پاکستان کے افق پر نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو آج مشکلات سے نکالنے کا کلیدی کردار ہماری مسلح افواج ہی کا ہے ریاست کے سارے ستون بشمول مسلح افواج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اجتماعی فیصلے قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کریں۔ سب سے پہلے معاشی ایمرجنسی وقت کی اہم ضرورت ہے جتنا جلد ہوسکے سیاسی عدم استحکام ختم کیا جائے موجودہ قومی سیاسی قیادت کو اگر ایک جگہ نہ بٹھایا گیا تو ملک اور قوم مزید دلدل میں پھنس جائے گئی۔ بقول اقبال: وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامہ فردا جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے آخر میں مسلح افواج کی ان عظیم ترین قومی اور ملی خدمات کی تحسین وتکریم کے باوجود یہ گزارش کرنا اپنی سمجھتا ہوں ماضی میں اگر مصلحت اندیشانہ طریقے سے کوئی فیصلے غلط ہوئے ہیں تو ان پر نظر ثانی کی جائے ان کی اصلاح کی جائے اور ملک کو داخلی انتشار اور خارجی دباؤ سے بچایا جائے۔