اگلا سال پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے کیسا ہوگا؟ وزیر اعظم پر اعتماد ہیں، اسٹیٹ بنک نے 1.5 سے2.5 فیصدتک معاشی ترقی کا تخمینہ لگایاہے،لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں اس مالی سال میں 5 فیصد سے زیادہ کی ترقی ہے جبکہ گزشتہ دو سال میں مسلسل منفی گروتھ ریکارڈ کی گئی،کرنٹ اکائونٹ کنٹرول میں ہے اور پانچ ماہ میں سرپلس رہا ہے،دسمبر میں برآمدات میں 18 فیصد اضافہ دیکھا گیا،لیکن ورلڈ بنک سال 2021 کیلئے جہاں پوری دنیا کی چار فیصد ترقی کا ٹارگٹ دے رہا ہے یعنی کورونا کے بعد ایک بڑی ریکوری دیکھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے خطے کیلئے 3.3 فیصد ترقی کا ٹارگٹ دے رہا ہے وہیں پاکستان کیلئے 2021 میں بھی محض.5 فیصد کی ترقی کا ٹارگٹ دے رہا ہے۔ 22/2021 کیلئے پاکستان کی ترقی کا ٹارگٹ صرف2 فیصد دیا گیا ہے،جبکہ خطے کیلئے 2022 میں 3.8 فیصد ترقی کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے،بھارت کی معیشت اس سال کورونا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی لیکن اگلے سال کیلئے ورلڈ بنک اس سال 5.4 اور اس سے اگلے سال 5.2 فیصد ترقی دیکھ رہا ہے۔بنگلہ دیش کی معیشت کورونا کے باوجود منفی نہیں ہوئی۔ اگلے سال کیلئے 1.6 اور اس سے اگلے سال کیلئے 3.4 فیصد ترقی کا تخمینہ دے رہا ہے،چین کیلئے 7.9 فیصد اور 5.2 فیصد ترقی کا تخمینہ دے رہا ہے لیکن پاکستان کیلئے صرف .5 فیصد ترقی دیکھ رہا ہے۔ ورلڈ بنک اس خدشے کا اظہار بھی کر رہا ہے کہ سروسز سیکٹر میں معاشی ریکوری کے کم امکانات ہیں،جس سے غربت میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سیکٹر پاکستانی معیشت کا تقریباً 50 فیصد ہے اور کم آمدنی والوں کی کمائی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اتنی کم ترقی کے ساتھ نہ تو روز گار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وزیر اعظم کا تیز ترقی کا دعویٰ اور وعدہ پورا ہو سکے گا۔ اس وقت مہنگائی کنٹرول میں ہے، انڈسٹری ترقی کر رہی ہے، شرح سود نیچے ہے تو کیا اس صورتحال میں مزید سرمایہ کاری ،مزید انڈسٹری مزید ترقی اور بر آمدات میں مزید اضافہ کی توقع کی جانی چاہئے،تجزیہ نگاروں کے مطابق آنے والا سال پہلے سے کہیں بہتر ہوگا ، اتنی بری معاشی بد حالی کے بعد اگر تھوڑی بہتر ہوتا ہے تو یہ ٹھیک نہیں زیادہ بہتر ہونا چاہئے۔ ورلڈ بنک کا فیگر مانا جائے تو ایک فیصد بہتری ہوگی اور اگر اسٹیٹ بنک کا فیگر مانا جائے تو تقریباً دو فیصد بہتری ہو گی۔ ورلڈ بنک کا توخیال ہے کہ دو سال بعد جا کر کہیں بہتری ہو گی ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق کورونا دو بارہ پھیل رہی ہے اگر یہ اسی طرح پھیلتا رہا ہے ترقی کے تمام دعوے بے سود ہونگے،دیکھنا یہ ہے کہ کورونا کب ختم ہوتا ہے اور اسکی ویکسین کب آتی ہے۔ جن ملکوں میں ویکسین آتی جائے گی وہ ملک ترقی کر تے جائیں گے۔بعض تجزیہ نگار اسٹیٹ بنک کے فیگر کو درست قرار دے رہے ہیں، ان کے مطابق ابھی تک لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کے جو نمبر آئے ہیں وہ کافی حوصلہ افزا ہیں اور آگے جاکر وہ نمبر اور بہتر ہونگے کیونکہ ایکسپورٹ میں بہتری ہے زرمبادلہ میں بہتری آ رہی ہے ،سروس کے امپورٹ میں کمی ہے یہ تینوں فیکٹر بڑے حوصلہ افزا ہیں، اس کے علاوہ اسٹیٹ بنک نے جو سہولیات دی ہیں جیسے شرح سود کم کی ہے نئی انویسٹمنٹ کیلئے سود کی شرح کم کی ہے قرضے زیادہ دیے جا رہے ہیں جو تقریباً 270 بلین روپے سے زائد ہیں۔ ابھی بے شمار درخواستیں پینڈنگ ہیں وہ 500 بلین تک جا سکتی ہیں جن لوگوں کو اتنا سستا فنانس مل رہا ہے وہ جو نئی اندسٹری لگائیں گے اس سے بھی معاشی صورتحال میں بڑا فرق دیکھنے کو ملے گا ۔کچھ انڈسٹریاں لگ رہی ہیں کچھ اس ا س سال لگیں گی ،کچھ اگلے دو سال میں چالو ہونگی تو آہستہ آہستہ بہت بہتری آتی جائے گی ۔اس وقت سب سے فیورٹ مارکیٹ ٹیکسٹائل کی ہے، وہاں کافی گہما گہمی دیکھی جا رہی ہے باقی لوگوں کو بھی دیکھا دیکھی میں جس طرح سستے قرضے مل رہے ہیں 10 سال کیلئے ان کو بھی انویسٹمنٹ کرنی چاہئے،اس کوارٹر میں بنکوں نے کنسٹرکشن کے شعبے میں 180 بلین سے زائد کے قرضے دیے ہیں۔ جب بہ سارا کام ہوگا تو یقیناً بہتر نتائج آ ئیں گے ظاہری طور پر تو کام اچھے ہو رہے ہیں اسی طرح پچھلے سال ریونیو تین ہزار نو سو بلین کے تھے اس سال چار ہزار نو سو بلین کا ٹارگٹ ہے، اگر ہم ٹارگٹ حاصل کرنے کی جانب جائینگے تو چوتھے کوارٹر میں وہ ریونیو گروتھ بہت اچھی نظر آئے گی۔ ہوسکتا ہے تیسرے کوارٹر میں ریونیو گروتھ 20یا 25 فیصد ہو اور چوتھے کوارٹر میں ریونیوگروتھ 40 یا 50 فیصد ہو اور اوور آل جو 5 فیصد ہے،6 مہینے میں گروتھ 20 یا 25 فیصد نظر آئے گی۔علاوہ ازیں آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی بہتر ہوتی معیشت کی تعریف کی ہے، آئی ایف کا کہنا ہے کہ نئے سال میں پاکستان کی معیشت مرحلہ وار بحال ہو گی، حکومتی اقدامات سے پاکستان میں دوسرے فیز میں بھی کورونا کی صورتحال بہتر ہو رہی دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی ڈونر ایجنسی کسی ملک کی تعریف نہیں کرتی اگر وہ کہے کہ اس ملک کی معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس ملک کو اب قرضوں کی ضرورت نہیں رہی۔ کوئی بھی ڈونر ایجنسی یہ نہیں چاہے گی کہ کوئی ملک اس سے قرضے نہ لے اس کا کارو بار کیسے چلے گا ،تو آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کی تعریف واقعی سوچنے کی بات ہے اس کا مطلب ہے پاکستان واقعی ترقی کر رہاہے۔اس کے علاوہ بھی کچھ اچھے کام ہو رہے ہیں جیسے گزشتہ ماہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 2.4 ارب ڈالرز ریکارڈ ترسیلات بھیجیں یہ پہلی بار ہوا کہ مسلسل 6 ماہ سے ترسیلات زر دو ارب ڈالر سے اوپر رہیں،گزشتہ مالی سال کی نسبت ترسیلات زر میں 24.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کے چھ ماہ میں 14.2ارب ڈالرز کی ترسیلات زر پاکستان آئی ہیں۔مشیر تجارت نے بتایا کہ دسمبر میں امریکا کو برآمدات میں 27 فیصد اضافہ ہوا،دسمبر 2020 میں امریکا کو425 ملین ڈالرز برآمدات ہوئیں،جبکہ گزشتہ سال دسمبر میں ہماری بر آمد334 ملین ڈالرز تھیں،یہ پہلی بار ہوا کہ امریکا کو برآمدات 400 ملین ڈالرز سے تجاوز کر گئیں،جولائی تا دسمبر کے دوران امریکا کو ہماری برآمدات میں18.4فیصد اضافہ رہا،جولائی تا دسمبر امریکا کو بر آمدات 2ارب20 کروڑ ڈالرز ہوئی ہیں گزشتہ سال اس عرصہ میں2 ارب 3 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کی برآمدات تھیں،امریکا کو ہماری برآمدات میں اضافہ ایکسپورٹرز کی بڑ ی کامیابی ہے۔پاکستان میں کسی حد تک عام استعمال کی چیزیں سستی ہوئی ہیں لیکن ابھی بھی کچھ چیزیں جیسے گھی،چینی اور پٹرول مہنگا ہے،لیکن پھر بھی مہنگائی کچھ کم ہوئی ہے اب توجہ دی جانی چاہئے روز گار پر ۔اگر روز گار ملنا شروع ہو جائے اور لوگوں کی تنخواہیں بڑھتی رہیں تو مہنگائی محسوس نہیں ہوتی حکومت کو اب ایسے اقدامات کرنے ہونگے کہ عام آدمی ریلیف محسوس کرے۔