ایک طرف میں جب اس مملکت خداداد کی دم توڑتی معیشت پر نظر ڈالتا ہوں عام آدمی پر بڑھتا ہوا دبائو محسوس کرتا ہوں۔ تمام بنیادی اداروں کو برباد ہوتے دیکھتا ہوں‘ ملک سے شہریوں کی کمٹمنٹ کمزور ہوتے انہیں ضروریات زندگی کے ہاتھوں خوار ہوتے‘ روزگار صحت اور تعلیم کے پیچھے بھاگتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آخر خرابی کہاں ہے؟ کیا اس ملک میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی کمی ہے۔ کیا اس ملک میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے والے دماغ نہیں ہیں۔ کیا اس ملک میں زمین نہیں کیا اس ملک میں زمین کو زرخیز کرنے کے لیے پانی نہیں‘ کیا اس ملک میں چاروں موسم نہیں‘ کیا اس ملک میں بیچ کو نمو دینے والی ہوا نہیں چلتی اور کیا اس ملک میں فصل پکانے والا سورج طلوع نہیں ہوتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں زمین ہے ہوا ہے پانی ہے بیچ ہے بوئے اور کاٹنے والے ہاتھ ہیں لیکن اس کے باوجود بھوک ہے‘ محتاجی ہے‘ کل کیا ہو گا کے اندیشے میں کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہے۔ جی ہاں جب اللہ کی زمین پر جاگیردار فرعونی بن کر قابض ہو گا تو کھیتوں میں بھوک نہیں اگے گی تو کیا اگے گا۔پھر میں سوچتا ہوں۔ جس ملک کی آبادی کا چھ فیصد حصہ اس کی ساٹھ فیصد قابل کاشت زمین پر پھن پھیلائے بیٹھا ہوگا جس ملک کے ایک فیصد جاگیرداروں کے قبضے میں 17 فیصد زرخیز زمین ہوگی۔ باقی 16 فیصد سونا زمین 3 فیصد جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہو گی جہاں پنجاب کے 32 فیصد شاہ‘ لغاری‘ مزاری‘ کھوسے‘ مخدوم‘ چودھری‘ ملک‘ ٹوانے اور گیلانی 58 فیصد زمین کے مختار کل ہوں گے جس کے سندھ کے دو فیصد پیر‘ جتوئی‘ جام‘ شاہ اور بھٹو 32 فیصد رقبے کے بادشاہ ہوں گے جبکہ سرحد کے ایک فیصد سے بھی کم خٹک‘ آفریدی‘ نواب الائی‘ میر اور باچے 15 فیصد زمین کے خدا ہوں گے جبکہ بلوچستان کے مری‘ مینگل اور بگٹی ایک ایک انچ زمین کے دیوتا ہوں گے اس ملک کے کروڑوں عوام کمی‘ مزارعے‘ ہاری نہیں ہوں گے ،تو کیا ہوں گے ۔ یاد رکھیں لینڈ ریفارمز کے بغیر کوئی ملک ایک انچ ترقی نہیں کرسکتا‘ انسانی بہبود کے تمام ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ قدرتی وسائل ضائع کرنے والے ملک زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ نوازشریف ہوں‘ آصف زرداری یا عمران خان کیا یہ حضرات ان جاگیرداروں سے ٹیکس وصول کرسکتے ہیں، جو لنڈی کوتل سے گوادر اور واہگہ سے چمن تک پھیلے ہوئے جو چودھری‘ ملک‘ مخدوم‘ لغاری‘ کھوسہ نواب‘ بگٹی‘ مینگل‘ مگسی‘ تالپور اور شاہ کہلاتے ہیں، جن کی زمینوں پر لاکھوں مزارعے جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، جن کے بچے دنیا کی مہنگی ترین درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو ہر سال کروڑوں روپے طوائفوں پر لٹاتے ہیں، جن کی رہائش گاہیں چاروں صوبائی مراکز اور وفاقی حکومت میں ہیں، جو ہر سال یورپ میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں، جو مہمانوں کو لاکھوں روپے کا روٹی ٹکڑ کھلا دیتے ہیں جن کے کتے‘ گھوڑے‘ اونٹ اور بٹیر انڈوں‘ مربوں اور منرل واٹر پر پلتے ہیں جو ہر سال اربوں روپے گاڑیاں خریدتے ہیں لیکن مجموعی طور پر صرف چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ کس سے ٹیکس وصول کرنے چلے ہیں، جہاں 24 کروڑ کی آبادی ہی چند لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں یہ کیسا ملک ہے جہاں زیادہ تر ٹیکس پیئرز صرف سرکاری اور نجی ملازمین ہیں۔ ان لوگوں کا ٹیکس بھی تنخواہ سے کٹتا ہے جہاں انکم ٹیکس کا چھوٹے سے چھوٹا ملازم بھی لاکھوں روپے کی پراپرٹی کا مالک ہے۔ یہ بھی عجیب و غریب ملک سے جہاں کشمیر‘ انکم ٹیک‘ پولیس‘ بلڈنگ کنٹرلو اور اس جیسے درجنوں محکموں پر فیکٹری ہر ادارے اور ہر سیٹھ نے ٹیکس بچانے کے لیے چارٹرڈ اکائونٹس رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اس ملک میں کسی شخص سے ٹیکس وصولی کرنے چلے ہیں‘ سب نے زور لگا کر دیکھ لیا کیا انہیں بھٹو ٹیکس دیں گے‘ میاں پورا ٹیکس دیں گے‘ لغاری‘ مزاری‘ کھوسے‘ مخدوم اور شاہ ٹیکس دیں گے۔ کیا یہ کارخانوں کے مالکان اور بڑے بڑے کاروباری لوگ ٹیکس دیں گے۔ کیا یہ سیٹھ حکومت کے سامنے اپنی آمدنی کھول کر رکھ دیں گے۔ جناب یہاں سے آپ کو وہ کچھ نہیں ملے گا، جس کا آپ دعویٰ کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران خواہ وہ کوئی بھی آج تک اپنے قول و فعل کے سچے نہیں رہے۔ اس لیے لکھ لیں‘ اس راستے سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ کیا کبھی چوروں نے بھی زکوٰۃ دی ہے چیلوں کے گھونسلے سے بھی کبھی ماس ملا ہے؟ دیمک نے بھی کبھی لکڑی کی حفاظت کی ہے۔ شوکت ترین‘ مفتاح اسماعل اور ڈار جیسے جتنے چاہیں۔ جتنے جادوگر بلالیں کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ کوئی بھی شخص پتھروں سے رس نہیں نچو سکتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکمران بھی نہ نیت کے سچے ہیں‘ نہ قول و فعل کے پکے ہیں۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کیونکہ ملک آج جس نہج پر پہنچ گیا ہے اس میں زیادہ دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں۔ عمران ہوں‘ نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری عام آدمی کو اس سے بروئے کار نہیں کہ آپ اسمبلیاں توڑیں نہ توڑیں‘ پرویزالٰہی وزیراعلیٰ رہے نہ رہے‘ آئین میں کیا ترمیمیں ہوں یا کیا نہیں۔ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی فیصلے عمامے پہن کر کئے جائیں یا وگ لگا کر‘ ملک کا سربراہ امیرالمومنین کہلائے یا وزیراعظم اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہوں یا صوبائی سربراہوں کے ہاتھ میں۔ بل دو تہائی اکثریت سے پاس ہوں یا سادہ اکثریت سے ہفتہ وار چھٹی اتوار کو ہو یا جمعہ کو‘ سود کا نام مارک اپ رکھ دیا جائے یا انٹرلیٹ خواتین برقعہ پہنیں یا دوپٹہ اوڑھیں‘ تعلیم عربی میں دی جائے یا انگریزی میں۔ انہیں چہروں سے نہیں بلوں‘ ترمیموں اور تبدیلیوں سے کوئی غرض نہیں۔ کون آتا ہے کون جاتا ہے۔ انہیں تو بس صاف ستھرا پانی چاہیے۔ باعزت روزگار‘ ضرورت کے مطابق تنخواہیں‘ سستا اور فومی انصاف‘ آزادی‘ تعلیم‘ دوا‘ سڑکیں‘ بجلی‘ ٹیوب ویل اور ایک سیدھا سادہ نظام چاہیے۔جی ہاں ان لوگوں کو نمک چاہیے‘ ان کو ان کی بنیادی ضرورتیں چاہئیں‘ انہیں اپنے مفادات اور خواتین کی چکی میں نہ پیسیں۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائیں۔ انہیں جھوٹے وعدوں اوردعوئوں کے ڈونگے گلاس اور چمچ نہ پکڑائیں‘ ان کا مطالبہ ان کی خواہش سمجھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بار بھی جو کچھ بجٹ میں وصول کیا جائے گا عوام کی جیبوں سے کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس بار بھی پائوں عوام کی گردن پر رکھا جائے گا۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اس ملک کے نوے فیصد لوگوں کو چور سمجھ لیا گیا ہے اور اس بار بھی حکومت ان بے زبان لوگوں کو قربان گاہ پر لا کھڑا کرے گی۔