پاکستان اور افغانستان کے درمیان ا عصاب شکن مقابلہ آخری اوور تک پہنچا۔نوجوان نسیم شاہ نے آخری دو بالوں پر جودو چھکے جڑے تو افغانوں کے دماغوں کی شریانیں کھل گئیں۔ خون آنکھوںمیں اُتر آیا۔جن کرسیوں پر بیٹھ کر میچ دیکھا تھا انہی کی سیٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر نیچے بیٹھے پاکستانی تماشائیوں پر پھینکنے لگے۔ میچ میں دو کھلاڑی الجھ پڑے تو سوشل میڈیا پر بھی محاذ کُھل گیا۔پاکستانی شائقین نے افغانیوں کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔ افغان مہاجرین کو فی الفور سرحد پار ان کے ملک واپس بھیجے جانے کے مطالبات شروع ہو گئے۔صرف مہاجرین کو ہی نہیں ، پوری کی پوری قوم کو عجیب و غریب القاب وخطابات سے پکارا جانے لگا۔یہ بھی کہا گیا کہ کرکٹ انہیں ہم نے پشاور کے میدانوں میں سکھائی، اب ہمیں کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔دوسری طرف سے بھی جوابی گولہ باری جاری رہی۔ جب ہم افغانیوں کے انتہا پسندانہ ردِّ عمل پر جز بز ہوتے ہیں تو ہمیں یاد رکھا جانا چاہیے کہ افغان نوجوان نسل ’جنگ کی اولاد‘ (Chlidren of war)ہے۔یورپ جیسے مہذب معاشرے میں جنگِ عظیم دوئم کے بعد کئی عشروں تک نوجوان نسل میں ہمہ وقت تشدد پرمائل رہنے کے رحجانات کا اظہار کئی صورتوں میں دیکھا جاتا رہا۔ ایک عرصے بعد معاشرے نے کہیں جا کر قرار پایا۔ افغانی توگذشتہ چار عشروں سے بارود کی گھن گرج اور گولیوں کی سنسناہٹ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پے در پے نسلیں خاک وخون میں لپٹی پروان چڑھی ہیں۔ حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو افغانیوں کے جارحانہ ، کہیں کہیں غیر شائستہ اور تماشائیوں کے اندر پُر تشدد رویوں پران کی تحقیر سے زیادہ اس قوم کے کرکٹ میںکمالِ فن پر داد دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کمال انہوں نے انتہائی نا مساعد حالات میں حاصل کیا۔سرحد کے دونوں اطراف پختون نوجوانوں نے تو گویا کھیل کو ایک نئی جلا ، نیا ولولہ بخشا ہے۔کرکٹ کا کھیل جس کی سست روی کا کسی زمانے میںمذاق اڑایا جاتا تھا ، اس کا مزاج بدل کر رکھ دیا ہے۔ہمارے خطے میں کرکٹ اب محض ایک کھیل نہیں، ایک ایسا جنون ہے، علاقائیت، لسانیت اور دیگر تفرقات کو پسِ پشت ڈال کر جو کسی بھی مقابلے کے دوران میدان میں اُتری قوم کو ایک لڑی میں پرو کر رکھ دیتا ہے۔افغانستان کا تو معاملہ ہی سب سے الگ ہے۔ دنیائے کرکٹ کی تاریخ میںشاید ہی کسی ایک ملک نے اس سرعت سے عالمی سطح پر اپنا مقام بنایا ہو گا۔آج بھی جبکہ تباہ حال ملک پر بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، افغان کرکٹ ٹیم عالمی معیار کی ہے۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ افغان کھلاڑی کسی اور کی نہیں، اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دیگر ممالک کے تماشائیوں کی طرح افغان باشندے بھی اپنی ہی ٹیم کو فتح سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ افغانیوں کی اس خواہش کو بالکل ویسے ہی دیکھنا چاہیئے، جیسے میں اور آپ پاکستان کی فتح اور شکست کے ساتھ جذباتی وابستگی کو دیکھتے ہیں۔چنانچہ جب افغان شہری اپنے ملک کی شکست پر رنجیدہ ہوکر شدیدردعمل کا اظہار کرتے ہیں تو ہمارے لئے ان کا طرزِ عمل قابلِ فہم ہونا چاہیئے۔ اُن کے خاص طور پر پاکستان مخالف رویے پر بھی ان کو معطون ٹھہرانا درست نہیں۔ اکثر افغانیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف انڈیلا گیا زہر سوچے سمجھے منصوبے کا شاخسانہ ہے۔لہٰذا مبینہ ’احسان فراموشی‘ پراگر کسی کے طرزِ عمل پر افسوس بلکہ مذمت کا اظہار بنتا ہے تو وہ اُن مخصوص عناصر کا مستقل رویہ ہے جوپاکستان میں رہتے ہیں ، یہیں کا کھاتے، یہیں کا پیتے ہیں، مگردل ان کے سرحد پار دھڑکتے ہیں۔پاکستان کی مخاصمت میں کسی بھی حد سے گزرجانے کا کوئی موقع جو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چنانچہ پاک افغان میچ کے ہیجان انگیز اختتام کے نتیجے میں جب دونوں ملکوں کے’کرکٹ لوَرز‘ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند تھے توہمارے ایک قوم پرست رہنماء نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک بار پھرایک مدبر اور منتخب عوامی نمائندے کی بجائے ایک تنگ ذہن چڑچڑے شخص کے طور سامنے آنے کو ترجیح دی۔ موصوف کا ٹویٹر اکائونٹ پاکستان اور پاک فوج مخالف پیغامات سے بھرا پڑا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک امریکی راتب اورافغان عوام کے خون پر پلنے والی بد عنوان ترین کٹھ پتلی حکومت اور رات کے اندھیرے میں لوٹے ہوئے ڈالروں سمیت بھاگنے والے اس کے نام نہاد سربراہ ذاتی حیثیت میں موصوف اورموصوف کے ساتھیوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔بدلے میں آپ بھی ہر معاملے میں افغان عوام پر مسلط کٹھ پتلی حکومت کے ہی طرف دار پائے گئے۔پاک سر زمین کہ جس کی خاک سے آپ کا خمیر اٹھا اور جس نے اپنی آغوش میں آپ کی پرورش کی، وائے حسرت کہ کٹھ پتلی افغانوں کے مقابلے میں پاکستان اور پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے خاکی پوشوں کی حمایت میں کبھی ایک لفظ بھی آپ کے سوشل میڈیا اکائونٹس پرہم نے نہ دیکھا ، نا ہی آپ کی زبان سے ادا ہوتے ہوئے کبھی سُنا۔قومی اسمبلی میں علی احمدخان نے اُن کی تقریر کے دوران ان کو سختی سے ٹوکا توجبھی آپ ایک توقف کے بعد پاک فوج کے جانثاروں کو شہید کہنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ازکارِ رفتہ سپاہی کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کااختیار نہیں رکھتا، تاہم کسی اور نے نہیں معتبر اداروں نے ہی سلائیڈوں کی مدد سے قوم کو بتایا تھا کہ جس ٹولے سے یہ صاحب وابستہ ہیں، انہیں فنڈنگ کہا ںسے آتی اور کیوں آتی رہی ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر ہماری نظروں کا دھوکہ ہے کہ مغرب زدہ لبرلز کا ترجمان انگریزی اخبار گذشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کرنے والے پاک افغان سرحد کے ہر دو اطراف کار فرما انہی عناصر کی حمایت میں یکسوئی سے سر گرمِ عمل رہاہے؟کچھ روز قبل اسی معاصر نے چھوٹی سی خبر لگائی کہ امریکی سینٹ کام کے عسکری ماہرین کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے ۔ بتایا گیا کہ وفد سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد متاثرین کی مدد امداد کا فیصلہ کرے گا۔ اب بتایا گیا ہے کہ مذکورہ دورے کے نتیجے میں پاکستان کی ایک عرصے سے رکی ہوئی فوجی امداد بحال ہو گئی ہے۔یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ سوال یہ ہے کہ معتبر اداروں کی متعین رائے کے باوجودکیا یہ محض اتفاق ہے کہ نئی حکومت میں اِن صاحب کو خارجہ امور سے متعلق اہم ذمہ داری تفویض کی گئی یا کہ یہ اسی سکیم کا تسلسل ہے کہ جس کے مطابق پاکستان میں افغان طالبان کی حامی سمجھی جانے والی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔جس کے معزول کئے جانے والے سربراہ کو اب بھی خطے کے اندر امریکی اہداف کی راہ میںرکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔بات جو ایک کرکٹ میچ سے شروع ہوئی تھی کہاں آن پہنچی۔اُمید کی جانی چاہیے کہ آئندہ کھیلے جانے والے پاک افغان کرکٹ مقابلوں کے نتائج سے قطعی نظر ہر دو اطراف سے صحت مند رویوں کا مظاہرہ کیا جائے گا۔