جس طرح انگریزی زبان، لاطینی، فرانسیسی، ہسپانوی اور دیگر زبانوں سے مستعار الفاظ سے خود کو جاذبِ نظر بنائے ہوئے ہے، ویسے ہی اردو کا ذخیرۂ الفاظ بھی پرائی زبانوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں ایک مشترک لاطینی لفظ ’’سینٹ‘‘ ہے۔ کسی بھی زبان میں اس لفظ کا تلفظ یا ادائیگی کا طریقہ مختلف نہیں۔لاطینی وہ زبان ہے جو رومن ایمپائر کی اشرافیہ بولتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ شرفاء کی نقالی کرنے اور طاقت کے ساتھ تعلق نبھانے نے اسے پوری رومن سلطنت کی زبان بنا دیا۔ لیکن تمیزِ بندہ و آقا کہاں ختم ہوتی ہے۔ پرانی لاطینی جو راج دربار کی زبان تھی اسے کلاسیکل لاطینی کا درجہ ملا اور ناروے سے لے کر پرتگال تک پورے یورپ میں بولی جانے والی لاطینی کو عامیانہ (Vulgar) لاطینی کا مقام حاصل رہا۔رومن بادشاہوں کے زمانے کا ’’سینٹ‘‘ دراصل بوڑھے اور دانا لوگوں کا ایک ادارہ ہوتا تھا،جو زیادہ تر شاہی خاندان یا اشرافیہ کے افراد پر مشتمل ہوتا۔ اس ادارے کی دو اہم حثیتیںتھیں،ایک فیصلہ سازی اور دوسری مشاورت۔ ابتدائی رومن سینٹ 603عیسوی تک قائم رہا اور پھر سلطنت کے زوال کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کو دوبارہ بازنطینی حکومت نے زندہ کیا اور یہ 1204ء میں ہونے والی چوتھی صلیبی جنگ تک قائم رہا۔ موجودہ مغربی جمہوریت چونکہ یونان اور روم کے تہذیبی کھنڈرات کی اینٹیں جمع کر کے بنائی گئی ہے اس لیے ’’سینٹ‘‘ اور ’’پارلیمنٹ‘‘جیسے ادارے بھی وہیں سے مستعار لے لیے گئے۔ برطانوی جمہوریت نے کمال مہارت سے شرفاء اور عوام کو علیحدہ علیحدہ بٹھانے کے لیے دو ایوان بنائے جن میں سینٹ کا نعم البدل ’’دار الامرائ‘‘ (House of Lords) بنایا اور ’’عام آدمی کے نمائندوں کا ہاؤس‘‘ (House of Comans) بنا دیا گیا۔دار الامراء میں ہر طبقے کی اشرافیہ ہوتی ہے، مذہبی ، نسلی، علاقائی اور لسانی وغیرہ۔ برطانیہ کے اس پر تعیش ’’دار الامرائ‘‘ کی طرز پردیگر پارلیمانی جمہوریتوں نے بھی اپنے اپنے ’’سینٹ‘‘ یا ’’ایوانِ بالا‘‘ بنائے۔ پارلیمانی جمہوریت کو خاص طور پر دو ایوانوں پر مشتمل بنایا گیا تاکہ وہ اشرافیہ جو عوام میں مقبول نہ رہے اور جمہوری طور پر منتخب نہ ہو سکتی ہو، اس کو کسی نہ کسی طریقے سے عوام کے سروں پر بٹھایا جا سکے۔ دنیا بھر کے ممالک میں سینٹ کا تصور تقریباً ویسا ہی ہے جیسا رومن سلطنت میں بوڑھے داناؤں کی سینٹ کا تھا۔ پاکستان کی موجودہ جمہوریت چونکہ برطانوی پارلیمانی نظام کی ایک بے ڈھنگی نقالی ہے ، اس لیے یہاں بھی ’’سینٹ‘‘ کا ادارہ تخلیق کیا گیا۔ اس ادارے کے قیام کی سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی کہ یہ ملک میں موجود چاروں اکائیوں کا نمائندہ ہے۔ یہی وجہ ہے اس میں چاروں صوبوں کی برابر سیٹیں رکھی گئیں تاکہ آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے اور سب سے چھوٹے صوبے کے سینیٹر ز کی تعداد میں کوئی فرق نہ ہو۔ اس طرح کے ’’بے جان سینٹ‘‘ سے صوبوں کی ’’برابر نمائندگی‘‘ کا تصور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سب سے بڑا مذاق ہے۔ ایک ایسا سینٹ جس کے پاس کسی قسم کے مالی اور انتظامی اختیارات نہ ہوں وہ کیا خاک نمائندگی کرے گا۔پاکستان کے سینٹ کا اپنے قیام سے لے کر اب تک کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے غلام اسحٰق کو ضیاء الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد صدر بنوایا تھا یا وہ اپنے چیئرمین کو صدر کی عدم موجودگی میں ایوانِ صدر کی سہولیات سے مستفیذ ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح کے بے جان اور بے روح ادارے کو وفاق کی چاروں اکائیوں کا ذمہ دار اور صوبائی ہم آہنگی کی علامت قرار دینا ایک مذاق سے کم نہیں۔قیامِ پاکستان سے لے کر 1973ء تک پاکستان میں صرف ایک ایوان والی جمہوریت تھی۔ وہ اسمبلی جس میں قائد اعظم اور ان کے ساتھی مخاطب ہوا کرتے تھے،وہاں سینٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ پاکستان کا پہلا آئین جو 23مارچ 1956ء کو نافذہوا ،اس میں بھی صرف ایک ہی اسمبلی تھی۔ ایوب کے ’’مارشل لائی آئین‘‘میں بھی سینٹ کی عیاشی اور شاہ خرچی موجود نہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے جس آئین کا تحفہ پاکستانی عوام کو دیا، اس میں سینٹ کا ادارہ بھی رکھ دیا گیا۔اس ادارے کے بنیادی طور پر دو اہم آئینی ’’وظائف‘‘ تحریر ہوئے۔ پہلا یہ کہ اسمبلی تحلیل ہو جائے تو یہ قائم رہتا ہے، جس کے ساتھ ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ بھی قائم رہتا ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ وفاق کی اکائیوں کو برابر کی نمائندگی دیتا ہے۔ اس ’’پرتعیش‘‘ ادارے کے قیام کے بعد کے عرصے میں دو بھرپور مارشل لا،ء ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے لگائے اور ہمارے صاحبانِ سیاست اسی بات پر خوش ہوتے رہے کہ چونکہ ہمارے پاس ’’سینٹ کا تسلسل‘‘ موجود ہے ،اس لیے جمہوریت کی گاڑی رواں دواں ہے، ’’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔ جہاں تک اکائیوں کی نمائندگی کا تعلق ہے تو یہ سینٹ اس وقت صرف صوبوں کی سرزمین کی نمائندگی کرتا ہے وہاں رہنے والے انسانوں کی مکمل طور پر نہیں۔ یہ ان لکیروں کی نمائندگی کرتا ہے جو انگریز صوبے بناتے ہوئے کھینچ کر گیا تھا۔ سینٹ میں لسانی، نسلی اور علاقائی اکائیوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی اکائیوں کی نمائندگی۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام لاتعداد اکائیوں میں منقسم ہیں۔ سینٹ میں پنجابی ، بلوچ، پٹھان، اور سندھی کی نمائندگی تو رکھ دی گئی ہے، لیکن ، پوٹھو ہاری، سرائیکی، بروہی، اردو بولنے والے اوردیگر علاقائی اقلیتوں کی کوئی براہ راست نمائندگی نہیںہے۔ برطانیہ سمیت ہر ایوانِ بالا میں مذہبی گروہوںکی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔ جہاں تک صوبوں کی نمائندگی کا تعلق ہے، تو اس اعتبار سے پاکستانی سینٹ اسقدر مجبور اور بے بس ہے کہ نہ تو یہ وسائل کی تقسیم کرتا ہے اور نہ ہی بجٹ منظور کرتا ہے۔ تعلیم، صحت، ذرائع آمدورفت، امن وعامہ جیسے اہم معاملات میں اس کا اختیار بس اتنا ہے کہ یہ اپنے معزز سینیٹرز کو اکٹھا کرے ،ان سے تقریریں کروائے، شعر سنے، گالیاں کھائے اور قراردادیں منظور کرے۔ پاکستان کا ’’سینٹ‘‘ گذشتہ پچاس سالوں سے منظورِ نظر لوگوں کو نوازنے اور سرمایہ لگا کر سینٹ کی سیٹ خرید کر وی آئی پی کی لسٹ میں شمولیت حاصل کرنے والوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ جو شخص الیکشن نہیں جیت سکتا، اسے سیاسی پارٹی سینٹ کے ذریعے عوام پر مسلط کرتی ہے اور جس سرمایہ دار کے پاس کہیں سے ناجائز دولت آجاتی ہے اور اسے دنیا میں کوئی پہچان میسر نہیں ہوتی، وہ دولت کے انبار ممبرانِ اسمبلی کے قدموں میں ڈھیر کرکے سینٹ کی نشست حاصل کر لیتا ہے اور پھراپنی گاڑی، مکان وغیرہ پر اس نام کی پلیٹ لگاتا ہے، وزٹنگ کارڈ چھپواتا ہے، بلیو پاسپورٹ بنواتا ہے اور پاکستان کی سیاست کا اہم ’’ستون‘‘ کہلاتاہے۔ جمہوری نظام کی اس شاہ خرچی سے اس وقت دنیا کے پچاس کے قریب ممالک نے نجات حاصل کر لی ہے اور انہوں نے اپنے ملک سے ’’سینٹ‘‘ نام کے ادارے کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ان ممالک میں یونان، سوڈان، ایران، سری لنکا، ارجنٹائن، روس، جاپان، پرتگال، فلپائن، انڈونیشیا، سویڈن اور فن لینڈ جیسے ممالک شامل ہیں۔ میں یہاں سینٹ کے اخراجات اور اسکے ارکان کی مراعات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ عوام کے پیسے سے ایک روپیہ بھی ایسی عیاشی پر خرچ کرنا صرف اور صرف شاہ خرچی ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر فیصلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوتا ہو اور جہاں معیشت سے لے کر امن عامہ اور ترقیاتی پروگرام سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک سب قومی اسمبلی اور صرف قومی اسمبلی میں ہی آئینی طور پر طے کیے جاتے ہیں، ایسے ملک میں ’’سینٹ ‘‘کا ادارہ ایک ایسی عیاشی ہے جسے سیاسی پارٹیاں اپنے وفاداروں کو نوازنے کیلئے استعمال کرتی ہیں اور نودولتیوں کی ضمیرخریدنے کے لیے ایک منڈی میسر آتی ہے۔