معزز قارئین! عربی زبان میں جِس مخلوق کو مخنث ؔ ، فارسی میں نامردؔ ، سنسکرت ، ہندی، اردو اور پنجابی میں ہیجڑاؔ اور انگریزی میں "Eunuch" کہا جاتا تھا ۔ اب اُنہیں احتراماً ’’خواجہ سرا ‘‘ کہا جاتاہے ۔پرانے تُرک سُلاطین اور بعد ازاں ہندوستان کے بادشاہوں کے دَور میں زنان خانہ کے نامرد خدمت گاروں کو خواجہ سرا ؔ کہا جاتا تھا۔ بعض خواجہ سرائوں کوبادشاہ کے مُشیر کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ کئی خواجہ سرائوں نے تو، بادشاہت کی اُلٹ پلٹ میں بھی اہم کردار ادا کِیا ہے ‘‘ ۔اُن دِنوں جسٹس افتخار محمد چودھری چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ جب نومبر 2009ء میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دِیا تھا کہ ’’ وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح ، خواجہ سرائوں کو قومی شناختی کارڈ ز ، پاسپورٹس اور دوسری مراعات بھی فراہم کرے !‘‘۔ 14 دسمبر 2010ء کو سندھ کے چیف جسٹس ۔سرمد جلال عثمانی اور جسٹس سلمان حمید پر مشتمل ڈویژنل بنچ میں خواجہ سرائوں کے ایک لیڈر ۔ بندیا راناؔ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ ’’ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود "N.A.D.R.A" کی طرف سے خواجہ سرائوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے میں کوتاہی کی جارہی ہے‘‘ ۔ اِس پر فاضل عدالت نے حکم دِیا تھا کہ ’’ نادرا ؔ ۔ فوری طور پر خواجہ سرائوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اُن کے نام انتخابی فہرستوں میں شامل کر ے! ‘‘۔ چنانچہ 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے بہت سے خواجہ سرائوں نے بھی ووٹ ڈالے۔ معزز قارئین! 22 نومبر 2016ء کو جمعیت عُلماء اسلام (ف ) کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ پاکستانی خواجہ سرا بھی انسان اور مسلمان ہیں ، لہٰذااُنہیں بھی انسانی حقوق دئیے جائیں!‘‘ تو، مجھے حافظ صاحب کی ’’انسان دوستی ‘‘ پر بہت خُوشی ہُوئی لیکن، حافظ حمد اللہ صاحب نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’ ہمارے بہت سے اینکر پرسنز ، سِنگھار کا سیلون چلانے والے اور ڈیزائنرز بھی خواجہ سرا ہیں‘‘ ، تو مجھے حیرت ہُوئی۔ 23 نومبر کو یہ خبر میڈیا کی زینت بنی کہ ’’ سعودی عرب کی حکومت نے پاکستان کے خواجہ سرائوں کو عُمرے کا ویزا دینے پر پابندی عائد کردِی ہے‘‘ ۔ اِس پر 24 نومبر 2016ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ سینیٹر حافظ حمد اللہ ۔ خواجہ سرائوں کے مسیحا؟‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں سینیٹرحافظ حمد اللہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ حافظ صاحب! آپ کی کی جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے تو، سعودی حکومت سے بہت گہرے تعلقات ہیں ‘‘۔ پھر آپ نے خواجہ سرائوں کی حمایت میں بیان دینے سے پہلے سعودی حکومت کو کیوں نہیں بتایا کہ ’’ پاکستان کے خواجہ سرا بھی مسلمان ہیں اور اُنہیں بھی مسلمانوں کی حیثیت سے عُمرے کی سعادت حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے؟‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں صدر ممنون حسین ، وزیراعظم نواز شریف، چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی ، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، چیف جسٹس محترم انور ظہیر جمالی ، چیف جسٹس ’’فیڈرل شریعت کورٹ ‘‘ جسٹس ریاض احمد خان اور ’’چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ مولانا محمد خان شیرانی سے بھی پاکستان کے خواجہ سرائوں سے سعودی حکومت کی زیادتی پر مداخلت کرنے کی درخواست کی تھی۔ معزز قارئین! مجھے بے حد خُوشی ہے کہ ’’ پنجاب کے خواجہ سرائوں نے تو، عید کے دوسرے دِن "Fountain House" لاہور میں چیف جسٹس آف پاکستان سے صِرف نادرا کی طرف سے اُنہیں قومی شناختی نہ جاری کرنے کی شکایت کی تھی لیکن، چیف جسٹس صاحب نے تو، عید کے تیسرے دِن اپنے اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل دورُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے نہ صِرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر کے خواجہ سرائوں کی جھولیوں کو خُوشیوں سے بھر دِیا ہے ۔ عدالت میں موجود100 سے زیادہ خواجہ سرائوں نے چیف جسٹس صاحب کے احکامات کو سُن کر اُنہیں موقع پر ہی دُعائیں دِیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے "One Window Operation" کے تحت خواجہ سرائوں کو سات دِن میں شناختی کارڈ فراہم کرنے کا حکم دِیا اور کہا کہ ’’ اُنہیں بھی عام انتخابات میں ووٹ کا حق ملنا چاہیے! ‘‘ ۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ خواجہ سرائوں سے بدتمیزی اور چھیڑ چھاڑ برداشت نہیںکی جائے گی ۔ اُن کے تحفظ کے لئے خصوصی عدالتیں بنائی جائیں گی! ‘‘۔ ایسے موقع پر نامور شاعرہ پروین شاکر نے کہا تھا کہ … اُس نے ، جلتی ہُوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا ! رُوح تک آ گئی ، تاثِیر ،مسیحائی کی ! معزز قارئین! کیوں نہ مَیں آپ سے ایک ایسے خواجہ سرا (مخنث ) جنرل "Maharathi Shikhandi" کا تذکرہ کروں جِس ، نے (ہندوئوں کی دیو مالا کے مطابق )۔ زمانہ قبل مسیح ، بھارت کے موجودہ صوبہ ہریانہ کے ضلع ’’ کورو کشیتر‘‘ میں ایک ہی دادا کی اولاد ۔ کوروئوں اور پانڈوئوں کی جنگ عظیم ’’ مہا بھارت‘‘ میں پانڈوئوں کی طرف سے لڑتے ہُوئے کوروئوں کی طرف سے لڑنے والے اُن کے اور پانڈوئوں کے دادا جنرل "Maharathi Bhishma"کو قتل کردِیا تھا۔ دراصل مہارتھی بھیشم پِتامہ ( بھیشم دادا ) نے قسم اُٹھا رکھی تھی کہ ’’ مَیں کسی عورت یا خواجہ سرا پر ہتھیار نہیں اُٹھائوں گا ؟‘‘۔ دُنیا کے مختلف ملکوں کے بادشاہوں نے اپنے حرم میں داخل عورتوں کی نگرانی کے لئے کئی مرد خواجہ سرائوں کو بھی ملازم رکھا ہُوا تھا۔ 3 مارچ 1924ء کو جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ’’ اتا تُرک‘‘ غازی مصطفی کمال پاشا کی صدارت میں جمہوریہ تُرکیہ کی "Grand National Assembly" نے خلافت کا ناکارہ ادارہ ختم کردِیا تھا ۔ اِس سے قبل ’’ خلیفہ ٔ اسلام ‘‘ کے نام سے تُرک سُلطان عبدالمجید ثاؔنی کو جب ، جلا وطن کِیا جا رہا تھا تو، برطانوی بحری جہاز میں اُس کا چہیتا خواجہ سرا بھی اُس کے ساتھ تھا، جِس نے ’’خلیفۂ اِسلام‘‘ کے قیمتی ہیروں اور جواہرات کا بھاری "Box" اُٹھا رکھا تھا ۔دُنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی خواجہ سرا ئوںکا دَور رہا ہے ۔ تبھی تو، "Oxford English Dictionary" میں "Political Eunuch" کا تذکرہ ہے ۔ یعنی۔ "A Person Lacking Effectiveness" ۔ اوکسفرڈ انگلش ، اردو ڈکشنری میں "Political Eunuch" کے معنی یوں لکھے ہیں کہ ’’ نا مرد ، بزدل اور ڈھیلا ڈھالا سیاستدان ‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’ برطانیہ میں خواجہ سرا سیاستدانوں نے وہاں کے عوام کو کیا فائدہ پہنچایا یا نقصان؟ لیکن، مَیں اور آپ بلکہ ہم سب یہ ضرور جانتے ہیں کہ ’’ بظاہر مردانِ جری حکمران / سیاستدان (اور مذہبی قائدین) بھی عوام کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں کر سکے؟۔ مجھے ڈر ہے کہ ’’کہیں ایسے حکمرانوں / سیاستدانوں سے تنگ آ کر غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستان کے 60 فی صد عوام ۔ 2018ء یا اُس کے بعد کے عام انتخابات میں ، خواجہ سرا سیاستدان ہی کو اپنا لیڈر منتخب کرنے کا نہ سوچ لیں؟۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ’’ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرائوں کی تعداد 10 ہزار بیان کی جا رہی ہے؟۔ معزز قارئین! ظاہر ہے کہ ’’ اگر ( مبینہ طور پر ) واقعی پاکستان میں 10 ہزار خواجہ سرا ہیں تو، اُن کی آبادی بڑھنے کا تو، کوئی امکان نہیں ہے لیکن، اگر مفلوک اُلحال عوام ’’ ووٹ کی طاقت سے ‘‘ کسی خواجہ سرا کو اپنا لیڈرمنتخب کرلے تو، ’’انسانی مساوات ‘‘ کے اصول کے تحت یہ تو، اُن کا بنیادی حق ہوگا۔ فی الحال تو، مَیں عام انسانوں کے ساتھ ساتھ ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی خدمت میں اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘ ‘ کے دو اشعار پیش کر رہا ہُوں… چیف جسٹس ، توڑ دیں گے جب ، بِنائے مُک مُکا! خَم کریں گے ، گردنیں جب ،خاک ِ پائے مُک مُکا! …O… نادرہؔ پوچھے گی سب کو ، کاؔفی ، چاؔئے مُک مُکا! کیوں نہ خُوش ہو ؟ قائد ِ خواجہ سرائے مُک مُکا! یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’بعض نیوز چینلز اپنے "Stickers" ۔میں "N.A.D.R.A" کو ’’نادرا ‘‘ کے بجائے ’’نادرہ‘‘ پیش کر رہے ہیں ۔ اب خواجہ سرا کیا کریں گے ؟ ۔ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے!۔