ایک وقفے کے بعد پاکستانی سیاست کی حرکیات واضح ہونے لگی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے خود کو مولانا فضل الرحمن کے کمبل سے دور کر لیا ہے۔ مولانا اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے یہودیوں کا ایجنٹ‘مغربی طاقتوں کا ایجنٹ جیسے القابات خرچ کر چکے ۔یہ سکے بازار میں کھوٹے ثابت ہوئے۔ مولانا موقع ڈھونڈ رہے تھے کہ سعودی عرب کو اعتماد میں لے کر کوئی مہم شروع کریں مگر عمران خان کی سعودی عرب میں بھر پور پذیرائی نے ان کی اس منصوبہ بندی کا راستہ مسدود کر دیا ہے۔ سنا ہے مولانا کے کچھ ہمدردوں نے انہیں مشور دیا ہے کہ وہ چین سے قربت بڑھائیں۔ چین نے جب سے پاکستان میں 52ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اسے یہاں کی سیاسی جماعتوں میں اپنے حامیوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ جماعت اسلامی کی پے درپے سیاسی غلطیاں اسے اس مقام پر لے آئی ہیں کہ اب اگلے عام انتخابات سے قبل اس کی سیاسی ساکھ میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ دو بار رکن اسمبلی مسلم لیگ ن سے اتحاد کے نتیجے میں بنے۔ لیاقت بلوچ کی ہمدردیاں مسلم لیگ کی جانب رہی ہیں۔ جناب سراج الحق مسلم لیگ کے مقابلے میں تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ منصورہ میں رہنے والے اکثر ذمہ دار نواز شریف کی مسلم لیگ کو سہارا بنا کر آگے بڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جماعت کی شوریٰ نے جو سیاسی حکمت عملی اپنائی وہ پوری طرح سے ناکام رہی۔ تحریک انصاف نے جماعت کو بطور اتحادی عام انتخابات میں ناقابل بھروسہ تصور کرتے ہوئے نظر انداز کر دیا۔ جماعت نے ماضی کی شاندار حیثیت کی امید میں ایم ایم اے میں شمولیت اختیار کی۔ جماعت کے رہنما اس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ بدلتے پاکستان میں مسلک کو ووٹ نہیں مل رہا۔ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے میں مولانا فضل الرحمن کی بالادستی قبول کی۔ یہاں بھی ہاتھ کچھ نہ آیا۔ مسلم لیگ ن مخصوص حالات میں جماعت سے تعلق بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ عجیب و غریب صورت حال اب جماعت کو اپنا غصہ ظاہر کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے عمران خان کی نااہلی کے لیے عدالت میں درخواست گزاری ہے‘ افتخار چودھری عمران خان کے لیے ناپسندیدہ ہیں۔ جانے یہ افتخار چودھری کا اصرار تھا یا جماعت نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کا فیصلہ کیا اور انہیں اپنی ایک تقریب میں مدعو کرتے ہوئے ان سے تعاون جاری رکھنے کے لیے پورا نظام وضع کرنے کا اہتمام کیا ہے‘ جماعت اسلامی افتخار چودھری سے یا پھر افتخار چودھری جماعت اسلامی سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جماعت اگلے الیکشن کے لیے کچھ جانے پہچانے چہروں کو الیکٹ ایبلز کی شکل میں اتحادی بنانا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ شریک چیئر پرسن اور ان کی ہمشیرہ کے خلاف مقدمات نئے موڑ پر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدانوں خصوصاً پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر مقدمات نئی بات نہیں لیکن یہ بات اہم ہے کہ ایسے مقدمات کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جب سید خورشید شاہ پر اپنے دور وزارت میں نوکریاں بانٹنے کا الزام لگایا تو جواب میں خورشید شاہ نے وہی بات کہی جو یوسف رضا گیلانی نے بیس سال پہلے کہی تھی کہ ’’اقتدار ملا تو نوکریاں دینے کا جرم پھر کریں گے‘‘ نوکریاں دینا جرم نہیں لیکن نوکریاں فروخت کرنا یقینا جرم ہے۔ اسی طرح کسی ادارے کی ضروریات سے زیادہ لوگ بھرتی کرنا جرم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوان چیئر مین اپنی صاف ستھری شخصیت اور سلجھی گفتگو ان لوگوں کے درمیان کر رہے ہیں جن پر عوام کا اعتماد اب پھر سے بحال نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کا راستہ روکتی رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک 500تک کیسے پہنچا۔ لاہور سمیت پنجاب میں کوئی بڑا پارٹی رہنما الیکشن کیوں نہیں لڑتا۔ سیاست میں اب نظریات کا کردار کمزور ہو چکا ہے۔ اب صرف نیشنلسٹ سوچ مقبول ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں اب بھی لوگ خود کو تھانے کچہری میں طاقتور رکھنے کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی کمزوری ان سیاستدانوں کے لیے کارآمد نہیں اس لیے بہت سے دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ آصف علی زرداری کے معاملات کس کروٹ بیٹھتے ہیں یہ اندازہ لگانا اب مشکل نہیں رہا۔ جمہوریت‘ وفاق اور آئین کے متعلق سب سے اچھی گفتگو پیپلز پارٹی کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ عوام اب معیشت اور بدعنوانی کے خاتمہ کی بات سننا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس طرف توجہ دینا ہو گی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار کا پہلا مہینہ نظام سے واقفیت حاصل کرتے گزارا ہے۔ ہر شعبہ مسائل زدہ ہے۔ تمام محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بہت سی ٹاسک فورسز بنا دی گئی ہیں۔ خارجہ تعلقات کو اقتصادی و تجارتی تعاون کی بنیاد پر استوار کیا جا رہا ہے۔پاکستان دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کر رہا ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں توازن پیدا کیا جا رہا ہے۔ نئی حکومت نے سفارتی انداز میں ایسے اشارے دیے ہیں کہ دوست ملک چین سرمایہ کاری معاہدوں پر ازسر نو بات چیت پر آمادہ اور سعودی عرب کو سی پیک کا حصہ بنانے پر تیار ہو گیا ہے۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہے۔ امریکہ کے بارے میں اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ وہ سی پیک کا مخالف ہے۔ اس صورت میں سعودی عرب کا عمران خان کی پیشکش پر سی پیک میں شامل ہونا بہت سی چیزوں کی شکل بدل دیتا ہے۔ حکومت کو اس نکتے کی کسی طرح وضاحت کا انتظام کرنا چاہیے۔ سنا ہے وزیر اعظم عمران خان کی نیند پوری نہیں ہو رہی۔ وہ رات گئے تک کئی طرح کی فائلوں کو پڑھتے رہتے اور مشاورت میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک ذمہ دار وزیر اعظم ایسا ہی کیا کرتا ہے لیکن کسی وزیر نے ابھی تک اپنی وزارت سے متعلق ایسے انقلابی فیصلوں سے عوام کو آگاہ نہیں کیا جس سے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔ رہی مسلم لیگ ن تو وہ آصف علی زرداری کی گرفتاری اور پرویز مشرف کی عدالت پیشی کے معاملات کو حکومت کی گرفت ڈھیلی کرنے والے معاملات کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہے کہ ایسا ہوا تو حکومت کی سیاسی مخالفت نتیجہ خیز ہوسکتی ہے اور سول ملٹری تعلقات خراب ہونے پر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔