معزز قارئین!۔ 24 فروری کے قومی اخبارات میں دو خبریں ساتھ ساتھ شائع ہُوئیں۔ ایک خبر پاکستان کے نامور ہندو لیڈر ، سندھ سے ، پاکستان تحریک انصاف کے رُکن قومی اسمبلی اور ’’ پاکستان ، ہندو کونسل کے "Patron In Chief"۔ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی دِلّی یاترا (دورۂ دِلّی ) کے بارے میں تھی ،جس میں اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں نے بھارتی وزیراعظم مسٹر نریندر مودی ، وزیر خارجہ شریمتی سُشما سوراج ، وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور سابق آرمی چیف جنرل وی۔ کے ۔ سنگھ سے اہم ملاقاتیں کی ہیں ‘‘۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے یہ بھی دعویٰ کِیا کہ ’’ میری 30 منٹ تک "One On One" ملاقات میں وزیراعظم نریندر مودی نے میرا گرمجوشی سے استقبال کِیا اور مجھے گلے بھی لگایا‘‘۔ بقول ڈاکٹر رمیش کمار ’’ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی پر واضح کِیا گیا کہ ’’ خطے میں مستقل امن کے قیام کے لئے دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا‘‘۔ بقول ڈاکٹر رمیش کمار کے اُنہوں نے وزیر خارجہ سُشما سوراج سے ملاقات میں اُن سے کہا کہ ’’ پاکستان اور بھارت کے عوام کا مفاد اِسی میں ہے کہ دونوں ملک امن کے ساتھ رہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ ڈاکٹر رمیش کمار کے بیان کے ساتھ ساتھ 24فروری ہی کو وزیراعظم نریندر مودی جی نے ’’راجستھان ریلی‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ پلوامہ حملے کے بعد پڑوسی ملک ( یعنی پاکستان) میں ہنگامہ برپا ہے۔ ہمیں انسانیت کے دشمنوں کو سفارتی سطح پر تنہا کرنا اور لازمی سبق سِکھانا ہوگا۔ہم اُس سے ہر چیز کا حساب لیں گے ۔ دُنیا کے زیادہ تر ممالک ہمارے ساتھ ہیں ‘‘۔ مودی جی نے یہ بھی کہا کہ ’’ عمران خان نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’مَیں جھوٹ نہیں بولتا‘‘ لیکن، اُن کے پاس اپنے الفاظ کا پاس رکھنے کا بھی وقت نہیں ہے ‘‘۔ ڈاکٹر رمیش کمار کی ’’دِلّی یاترا ‘‘کو "Back Door Policy" اور ڈاکٹر رمیش کمار کا خلوص سمجھا جانا چاہیے ۔ وزیراعظم مودی کو وزیراعظم عمران خان کا ’’ پیغامِ امن‘‘ بھی لیکن،دہشت گردی میں لت پت ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی ‘‘ کے منتخب وزیراعظم شری نریندر مودی اور اُنکے ساتھیوں سے امن کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟۔ معزز قارئین!۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’منوسمرتی‘‘(Manusmriti) کے مطابق ہندوئوں کی چار ذاتوں میں سے ’’ویش‘‘ (Vesh)تیسری ذات ہے جسے، عربی میں ’’بقال‘‘ ، اردو اور ہندی میں ’’بنیا/ مودی‘‘ کہتے ہیں ۔ بھارتی ہندوئوں کے باپو شری موہن چند کرم داس گاندھی جی بھی ذات کے ’’بنیا / مودی ‘‘ تھے ۔ گاندھی جی نے ہندوستان کے مسلمانوں کو لبھانے کے لئے اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے قائداعظم ؒ کے مخالفین ’’ جمعیت عُلمائے ہند ‘‘ کے بعض مولویوں اور دانشوروں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لِیا تھا ، جنہیں قائداعظمؒ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکن ’’ کانگریسی مولوی کہا کرتے تھے ۔ یہ گاندھی جی کا کمال ؔتھا کہ ’’ جنہوں نے ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے آئین میں تبدیلی کر کے کئی سال تک ’’ امام اُلہند‘‘ کہلانے والے ابو اُلکلام آزاد ؔ صاحب کو کانگریس کا صدر منتخب کرایا، جنہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ’’ کانگریس کے "Showboy"کا خطاب دِیا تھا ‘‘۔ متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک اور مودی ؔ (بنیے) کا ذکر آتا ہے ۔ اُس کا نام تھا ’’ ہیمو‘‘ (Himoo) جو، ہندوستان کے بادشاہ عادل شاہ سوری کا "Chief of the Army Staff" بننے میں کامیاب ہو گیا تھا اور وہ 7 اکتوبر 1556ء کو ’’ مہاراجا بِکرما جیت‘‘ کا لقب اختیار کر کے ہندوستان کے تخت پر بیٹھ گیا تھا لیکن 5 نومبر 1556ء کو کو مغل جلال اُلدّین اکبر کے اتالیق اور سِپہ سالار بیرم خان نے اکبر بادشاہ سے ’’ہیمو بقال ‘‘ کا سر قلم کرایا اور بادشاہ کو غازی کا خطاب بھی دِیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ 26 مئی 2014ء کو شری نریندر ا ؔ،دامودردؔاس مودی ؔنے بھارتی وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو، مَیں نے اپنے 28مئی کے کالم میں اُن کے نام کے معنی بیان کئے تھے ۔ کیوں نہ ’’قند مکرر ‘‘ کے طور پر دوبارہ عرض کروں سنسکرت اور ہندی میں ’’ نریندرا ‘‘ سانپ اور بچھو کے کاٹنے کا علاج کرنے والے کو کہا جاتا ہے اور دامودرؔ ۔ وِشنو دیوتا کے اوتارؔ ۔شری کرشن جی مہاراج کا صفاتی نام ہے ۔ لڑکپن میں جب شری کرشن جی بہت شرارتی تھے تو ، اُن کی رضاعی ماں ’’یشودھا‘‘ (Jashoda) نے اُن کے ’’ اُدر‘‘ (پیٹ ) پر ’’دام ‘‘ (رسی) باندھ دِی تھی۔ پھر وہ ’’ دامودر‘‘ کہلائے ۔ نریندرا جی کے پِتا جی نے اُن کا نام دامودر داؔس رکھا ۔ یعنی۔ شرارتی دامودر ؔکا بندہ یا غلامؔ ، حالانکہ شری کرشن جی کے بہت اچھے اچھے صفاتی نام بھی تھے۔ یہ نریندر دامودر داس مودی جی کی بدقسمتی ہے یا خُوش قسمتی کہ ’’بھارتی صوبہ گجرات کے گائوں ’’راجو سانا ‘‘ کی سکول ٹیچر مودی جی کی دھرم پتنی ( اہلیہ) کا نام بھی ’’یشودھا بَین‘‘ (Jashoda Ben) ہے۔ بَین (Ben) بھی بنیوں ہی کی ایک گوت (Subcaste) ہے ۔ شریمتی یشودھا بَین پر کسی طرح کا کوئی بھی الزام نہیں لیکن، مودی جی نے اپنی دھرم پتنی کو اپنی تقریب ِ حلف وفاداری میں مدّعو نہیں کِیا تھا۔ حالانکہ اُنہوں نے اُنہیں طلاق بھی نہیں دِی تھی ۔کِتنا ظلم ہے ؟ کہ ’’ وزیراعظم مودی نے ابھی تک اپنی 66 سالہ دھرم پتنی کو بھارت کی ’’خاتونِ اوّل‘‘( First Lady of India) کا درجہ نہیں دِیا؟اور ’’ ہندو دھرم ‘‘ کے کسی بھی پیشوانے مودی صاحب کے اِس ظلم پر احتجاج تک نہیں کِیا؟۔ معزز قارئین!۔ کیوں نہ وزیراعظم مودی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کا بھی تذکرہ ہو جائے ۔ 26 مئی 2014ء کو نو منتخب وزیراعظم شری نریندرا دامودرداس مودی کی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک میں سب سے بڑے ملک بھارت میں ایک طرح کا جشن تھا جس، میں وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت سارک ممالک کے سبھی سربراہ شریک ہُوئے۔ یہ محض اِتفاق تھا کہ ’’ 26 مئی 2014ء کی شب ۔’’ شب ِ معراجِ رسولؐ ‘‘ تھی۔ جس رات مسلمان ساری رات عبادت میں گزارتے ہیں ۔ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان نے وہ رات بھارتی وزیراعظم کے ساتھ گزاری؟۔ اگلے صبح کے اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’بھارتی وزیراعظم شری مودی نے وزیراعظم پاکستان میاںنواز شریف کو "Man of the Peace" (مردِ امن) کا خطاب دِیا ہے ‘‘۔ پھر مودی جی نے وزیراعظم نواز شریف کی والدۂ محترمہ کو شال ؔ کا تحفہ بھجوایا اور جوابا ً وزیراعظم نواز شریف نے مودی جی کی ماتا کو سفید ساڑھی کا تحفہ ۔ ’’سفید ساڑھی ‘‘ عام طور پر ہندو بیوا عورتیں ہی پہنتی ہیں ۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ’’ 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی سالگرہ اور خود اپنی سالگرہ پر رائے وِنڈ میں وزیراعظم نواز شریف کی نواسی (مریم نواز کی بیٹی) مہراُلنساء کی رسمِ حناء پر اپنے لائو لشکر سمیت شری نریندر مودی مہمان خصوصی تھے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے اُنہیں اپنی والدۂ محترمہ سے ملوایا ۔ اگلے روز میڈیاپر بتایا گیا کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف کی والدۂ محترمہ نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’ مل کر رہو گے تو، خُوش رہو گے ‘‘ اور پھر مودی جی نے بھی بڑی سعادت مندی سے کہا تھا کہ ’’ ماتا جی!۔ ہم اکٹھے ہی ہیں‘‘۔ معزز قارئین!۔محض پاکستان کے کسی صدر یا وزیراعظم کی امن کی خواہش سے بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اُن کا حق خود ارادیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا؟۔ شری نریندر مودی اور وزیراعظم نواز شریف کی خفیہ ملاقات یا ’’شانتی یاترا‘‘ (امن کا سفر ) کافی نہیں تھا ۔ اِس پر شاعرِ سیاست نے کہا تھا کہ … ٹی وی کی سکرِین پہ فوٹو کھِچواتے! اِک دْوجے کے گھر میں رہیں آتے جاتے! اور کریں مضبُوط تجارت کے رِشتے! مسئلہ کشمِیر کو ڈالیں کھُوہ کھاتے! معزز قارئین!۔ سابق صدر زرداری اور پھر نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے دَور میں تقریباً 10 سال تک ’’امیر جمعیت عُلماء اسلام‘‘ ( فضل اُلرحمن گروپ ) پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے لیکن، اُنہوں نے ’’خطّے میں امن ‘‘ کے قیام کے لئے کسی بھی بھارتی وزیراعظم کو پاکستان کے صدر یا وزیراعظم کا پیغام نہیں پہنچایا؟۔ اب کرلو جو کرنا ہے ؟ ۔