پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قاہرہ میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی‘ جس میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ، پاکستان اور مصر کے مابین مختلف شعبہ ہائے جات میں دو طرفہ تعاون اور خطے میں امن و امان کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان قیادت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پاکستان اور مصر کے مابین مذہب ‘ اخوت‘ ثفافت اور تاریخی بنیادوں پر مضبوط و مستحکم تعلقات قائم ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 1946ء میں مصر کا دورہ کر کے وہاں کی قیادت کو قیام پاکستان کے بارے آگاہ کیا تھا۔جس پر مصر کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا،یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور مصر اہم علاقائی اور عالمی امور پر یکساں موقف کے حامل ہیں۔مودی سرکاری کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بربریت ‘ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مصر پاکستانی موقف کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ بھارت سرکار کی ہندو توا پالیسیوں کے باعث خطے پر پڑنے والے اثرات پر بھی فکر مند رہتا ہے۔مودی سرکاری نے جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو اس پر او آئی سی کا موقف بڑے مضبوط اور جاندار طور پر سامنے آیا تھا،بعد ازاں پوری اسلامی دنیا نے بھارتی حکومت کے ان مذموم اقدامات کی بھر پور مذمت کی تھی اور بھارت کی کشمیریوں پر عائد پابندیوں کو فی الفور ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ اس وقت پاکستان اور مصر کے درمیان تجارتی حجم260ملین ڈالر کے قریب ہے جبکہ مصر کی کمپنیاں پاکستان میں فارما سیوٹیکل‘ زراعت‘ لائیو سٹاک‘ سیاحت اور تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہشمند بھی ہیں۔ پاکستان کو بھی اپنی برآمدات بڑھانے کے لئے نئی مارکیٹوں کی تلاش ہے۔پاکستان پہلے کئی قسم کی اشیاء مصر کو برآمد کر رہا ہے ،اس کے علاوہ حلال فوڈ ‘ ادویات‘ مشینری اور دفاع سازوسامان بھی مصر کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ مصری عوام کی بھی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ وہ حلال فوڈ استعمال کریں ،اس حوالے سے پاکستانی چین سٹورز کو بھی مصر میں اپنی برانچیں کھولنی چاہیں۔مصر ایک بہت بڑی منڈی ہے اور وہاں کی اوسط آمدنی بھی بہت اچھی ہے ۔اگر پاکستانی چین سٹورز وہاں پر بزنس کرتے ہیں تو ان کے لیے آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔ مصر چین اور پاکستان کے اقتصادی راہداری کے منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لئے کوشاں ہے کیونکہ سی پیک کے ذریعے نہر سوئز تک آسان رسائی ملے گی۔ جبکہ مصر کی تمام تر آمدنی کا انحصار سیاحت اوورسیز مصری اورنہر سوئز پر ہے۔ اس کے ذریعے اسے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔2020ء میں مصر کو نہر سوئز سے 61.5ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہونے کی بنا پر مصر گندم‘ چاول سمیت تمام تر زرعی اجناس درآمد کرتا ہے لہٰذا حکومت پاکستان اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی برآمدات کو بڑھا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں برادر ممالک قدیم ثقافتی ورثے کے امین ہیں، مصر میں زمانہ قدیم کے بڑے آثار موجود ہیں ،جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح وہاں کا رخ کرتے ہیں ،اگر سیاحت کے فروغ کے لئے قریبی رابطوں کو مستحکم کیا جائے تو اس سے دونوں ممالک کو خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔ دونوں ممالک اسلامو فوبیا کے تدارک کے لئے بھی موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر دنیا میں اسلام کے حقیقی اور پرامن تشخص کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت جب دنیا بھر سے اسلام پر طاغوتی قوتوں کی یلغار جاری ہے۔ آئے روز رسالت مآبؐ کی ناموس پر حملے ہو رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے جس طرح مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔ ان حالات میں عالم اسلام کے مضبوط و مستحکم ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور مسلم امہ کی قیادت کر کے اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کریں۔ مذہبی و تعلیمی حوالے سے مصر کے جامعہ الازہر کا بڑا نام ہے۔ اس لئے اسے ان حالات میں اسلام کی اصل تصویر کو منظر عام پر لا کر دنیا کو بتانا چاہیے کہ اسلام امن‘ محبت‘ اخوت اور رواداری کا مذہب ہے۔ لہٰذا اسے اس تناظر میں دیکھا جائے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورے کے دوران تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور کثیر الجہتی شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو وعدوں، دعوئوں اور نعروں سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسی باتیں تو ماضی کی حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں۔اس وقت ان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ مصر کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنا کر تجارت کو فروغ دیا جائے۔ دنیا بھر میں قائم سفارت خانوں میں بزنس اتاشیوں کو ذمہ داریاں پوری کرنے پر زور دیا جائے۔ کیونکہ کورونا وائرس کے بعد اب تجارت کو دنیا بھر میں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی خسارے پر تب ہی قابو پایا جا سکتا ہے جب تجارت کو فروغ دے کر برآمدات کو بڑھایا جائے۔ لہٰذا مشیر تجارت نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ یورپی ممالک کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات کو مستحکم بنانے کا سلسلہ شروع کریں۔ کابینہ نے یکم مارچ سے تمام تر سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا تجارتی سرگرمیاں بحال کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافے کے بھی اقدامات کئے جائیں۔