لاہور(جوادآراعوان)پاکستان کی ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے کوششوں کے نتیجے میں بریک تھرو کا امکان ہے ،مشرق وسطیٰ کے دو بڑے مسلم ممالک نے وزیراعظم عمران خان کی مفاہمتی کاوشوں کے جواب میں تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کے لئے ٹکرائو کی پالیسی سے اجتناب کا عندیہ بھی دے دیا۔اعلیٰ سفارتی حکام نے روزنامہ92نیوز کو بتایا کہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کو درخواست کی کہ دونوں ممالک تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے ’’ایسکلیشن لیڈر‘‘سے اجتناب کریں،اس حوالے سے سفارتی اور فوجی دونوں محاذوں پر سیز فائر کریں جسکا پس منظر یمن کا تنازع ہے ،پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کویمن کے تنازعے پر کسی بڑے ٹکرائو کی صورت میں مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا جس سے دونوں مسلم ممالک نے اتفاق کیا،تہران اور سعودی عرب کے درمیان کسی باقاعدہ لڑائی کی صورت میں عراق ،شام،لیبیا اور افغانستان میں آپریٹ کرنے والے بڑے دہشتگرد نیٹ ورکس کے خطرناک کردار کے خطرات سے بھی آگاہ کیا،ان نیٹ ورکس کی تھریٹ اس قدر خظرناک ہو سکتی ہے جو پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے دوبرادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے کسی ممکنہ ملاقات کے لئے ’’موڈریٹر اور ہوسٹ‘‘ کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی جسکے لئے وہ ہر وقت تیار ہے ،پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے بیک چینل ڈپلومیسی پہلے سے ہی کر رہا ہے ،جبکہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایران اور سعودی عرب فرنٹ چینل اوپن کرنے کا پہلا رائونڈ تھا ،بیک چینل ڈپلومیسی کا ٹریک کام کرتا رہے گا جو تہران اور ریاض کے سفارتی اور بااثر حلقوں کو انگیج رکھے گا ،سعودی عرب کے ایران سے حالیہ تنائو کے پیچھے یمن کے حوثی ملیشا کا سعودی آل جائنٹ آرامکو پر حملے ہیں،بین الاقوامی سکیورٹی حلقوں کا ماننا ہے کہ حوثی ملیشیا کو ایران کے سکیورٹی ادارے سپورٹ کرتے ہیں،پاکستان اس سے قبل بھی ایران اور سعودی عرب میں تصفیہ طلب معاملات کے لئے کوششیں کر چکا ہے ،آخری کوشش 2016میں سابق آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شریف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر)رضوان اختر نے کی،لیکن وزیر اعظم عمران خان کے دونوں برادر اسلامی ممالک کے دورے کو مشرق وسطیٰ اور مغرب میں اہمیت دی جا رہی ہے اور انکا ماننا ہے عمران خان کا دورہ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔