ایڈیشنل سیکرٹری صنعت نے سینیٹ کمیٹی برائے صنعت کے اجلاس میں ملکی ساختہ گاڑیوں کا معیار انتہائی گرا ہوا ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ٹین کا ڈبہ قرار دیا ہے۔ آٹو موٹیو انڈسٹری سے 18 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ حکومت ملکی ساختہ گاڑیوں کے استعمال کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے غیرملکی گاڑیوں کی درآمد پر بھاری ٹیکس نافذ کرتی آئی ہے۔ ان اقدامات کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کارساز ادارے عالمی معیار کے مطابق مناسب قیمتوںپر گاڑیاں تیار کرتے مگر بدقسمتی سے آٹو انڈسٹری نے حکومتی مراعات کا فائدہ عوام کو پہنچانے کے بجائے اپنی اجارہ داری قائم کر لی اورمن مانیاں شروع کر دیں۔ پڑوسی ملک میں سوزوکی، ماروتی، ایس وی یو گاڑی 3 لاکھ 49 ہزار میں فروخت کی جا رہی ہے جبکہ پاکستان میں اس درجے کی اس سے گھٹیا معیار کی گاڑی 9 لاکھ میں بک رہی تھی۔ حکومت نے ماضی میں جب اجارہ داری ختم کرنے کے لئے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی اجازت دی تو آٹو انڈسٹری کے سرمایہ داروں نے معیار بہتر کرنے کے بجائے اپنے پلانٹس بند کر دیئے اور حکومت کو 18 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا بتا کر بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ اب سیکرٹری صنعت نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں ٹین کا ڈبہ ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت آٹو انڈسٹری مافیا سے بلیک میل ہونے کے بجائے کارسازوں کو مسابقتی ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ملکی گاڑیوں کی قیمت اور معیار کا تعین بھی کرے تاکہ پاکستانیوں کو عالمی معیار کی گاڑیاں مارکیٹ قیمت پر میسر آ سکیں۔