اگر سؤر کی گردن پر تکبیر پڑھ کر چھری چلائی جائے تو کیا اس کے گوشت پر وہی احکاماتِ شریعت لاگو ہو سکتے ہیں، جو بکری کے گوشت پر ہوتے ہیں۔ پاکستان کا خزانہ جس کی بنیادوں میں سود کا ناپاک سرمایہ شامل ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق سؤر کے گوشت سے بھی زیادہ نجس و ناپاک ہے، ایک ایسی گندگی اور پلیدی ہے جسے صدقات و خیرات بھی پاک نہیں کر سکتے۔ ایسا پاکستان کے آئین میں قراردادِ مقاصد کی شمولیت اور آرٹیکل: 2 کے یہ الفاظ کہ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے، اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کا جو اختیار سونپا ہے وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘،دراصل ویسی ہی تکبیر جسے پڑھنے کے بعد خزانے میں موجود حلال و حرام مال کو اکٹھا کر کے یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ اب یہ سارے کا سارا حلال ہے۔ جس ملک کا وزیر خزانہ ہر سال بجٹ کے مطالباتِ زر (Demand of Grants) منظوری کیلئے پیش کرتے ہوئے بتائے کہ ہم نے محصولات (Taxes) میں سے اس سال اتنے پیسے سود میں ادا کرنے ہیں اور اتنے پیسے اصل زر کے طور پر واپس کرنا ہے تو اس خزانے کو ’’بیت المال‘‘ کہنا اور پھر اس کے مصارف کے بارے میں علمائے کرام سے شرعی آراء طلب کرنا، دین کے ساتھ ایک مذاق ہے اور یہ کھلواڑ گزشتہ کئی سالوں سے اس ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔ جس ملک نے اپنے گذشتہ مالی سال میں تین ہزار نوسوچون (3954) ارب روپے سودی قرضہ جات کی ادائیگی پر خرچ کئیے ہوںاور تقریباً تین ہزار ارب مزید سودی قرضہ لے کر خزانے کا منہ بھرا ہو، ایسے خزانے کے بارے میں یہ بحث کسقدر مضحکہ خیز ہے کہ اس سے مندر بننا چاہیے یا گردوارہ، مسجد بننی چاہیے یا گرجاگھر۔ مجھے تو حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اسی سودی خزانے کو ’’بیت المال‘‘ جیسے پاکیزہ نام سے تشبیہ دیکر اس سے مساجد و مدارس کے فنڈ مانگے جاتے ہیں، حج کی مراعات طلب کی جاتی ہیں۔ مندر کی تعمیر کے بارے میں جتنا شور برپا ہے، کیا اس طرح کا ایک فیصد شور بھی کبھی اس بات پر اٹھایا گیا کہ حکومت بائیس کروڑ عوام کے خون پسینے سے کمائی گئی حلال کمائی میں سود کی ملاوٹ سے اسے مکمل طور پر حرام بنا رہی ہے۔ عام آدمی اگر دارالافتاء سے یہ فتویٰ پوچھے کہ میری کمائی، بینک اکائونٹ یا جی پی فنڈ میں اتنا سود ملا ہوا ہے، تو ہر مکتبۂ فکر کا عالم یہ فتویٰ دے گا کہ دودھ کے جگ میں اگر پیشاب کا ایک قطرہ بھی مل جائے تو پورا دودھ پلید ہوجاتا ہے لیکن پاکستان کا خزانہ جس پر بیت المال کی تہمت لگا کر آپ اس کے مصارف پر بحث کرنے جا رہے ہو، اس خزانے کے دودھ کو تو ہر سال سود کے پیشاب سے غسل دیا جاتا ہے۔ میرے سامنے امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم ؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ پڑی ہے جس میں انہوں نے بیت المال کے محاصل (Sources) اور مصارف (Expenditures) کی تفصیل مرتب کی ہے۔ یہ کتاب خلیفہ ہارون الرشید کی رہنمائی کے لئیے تحریر کی گئی تھی۔ آپ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد تھے۔ آپ کا زمانہ تابعین کا زمانہ تھا۔ آپ ۱۱۳ ہجری بمطابق 731 عیسوی کوفہ میں پیدا ہوئے اور 5ربیع الاول 182ہجری بمطابق 21اپریل798عیسوی بغداد میں فوت ہوئے۔ اس دور میں لاتعداد ایسے افراد موجود تھے جنہوں نے صحابہ کرامؓ سے براہِ راست اکتسابِ فیض کیا تھا۔ کیونکہ آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہؓ 110ہجری میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ امام ابو یوسف ؒکی کتاب دراصل بیت المال اور اسلامی نظامِ معیشت و مالیات کا وہ ڈھانچہ ہے جس پر ایک اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اسلام کا یہ مالیاتی نظام ہر قسم کے سود، کاغذی کرنسی، ٹیکس اور دیگر جدید مالیاتی نظاموں کی خرافات سے پاک ہوتا ہے۔ یہ نظام تیرہ سو سال کے تواتر کے ساتھ 1918ء تک آخری اسلامی ریاست، خلافتِ عثمانیہ میں نافذ العمل رہا۔ میرے سامنے خلافتِ عثمانیہ کے حکومتی قوانین کا مجموعہ ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ بھی پڑا ہوا ہے۔ میں دونوں کتابوں کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلم امہ کے نظامِ معیشت و مالیات میں تیرہ سو سال تک ایک تسلسل رہا ہے۔ جو احکاماتِ شریعتِ رسولِ اکرم ﷺ کے دور میں نافذ العمل تھے اور جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین نے قرآن و سنت کے احکامات کے عین مطابق سلطنت کی وسعت کے مطابق اختیار کیا اور ان کے بعد آنے والے کو بنو امیہ اور بنو عباس کی بادشاہتوں نے بھی ویسے ہی قائم رکھا۔ تیرہ سو سال کے اس عرصے میں اسلامی ریاست تین براعظموں پر پھیلی، اس میں روم اور ایران کی کروفر اور پرتعیش بادشاہتیں بھی ضم ہوئیں، جدید انقلاباتِ زمانہ بھی آئے اور دنیا میں فرانس، برطانیہ، سپین، ہالینڈ اور پرتگال جیسی نو آبادیاتی قوتیں بھی وجود میں آئیں، 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کی بنیاد کے ساتھ سودی معیشت کا آغاز بھی ہوا جس کے بعد ریاستی ٹیکسوں کو جامع نظام وجود میں آیا، ریاست کی طاقت میں ظالمانہ وسعت آئی اور اس کے پنجے دن بدن گہرے ہوتے گئے، لیکن ان تیرہ سو سالوں میں خلافتِ راشدہ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ جیسی عالمی قوت کے دور تک کبھی کسی نے دوسروں سے متاثر ہو کر محاصل یعنی آمدن کے ذرائع اور مصارف یعنی اخراجات کا پیمانہ نہیں بدلا۔ وہ اس پر قائم رہے جو قرآن و سنت میں بتا دیا گیا تھا اور جس کے مطابق خلفائے راشدین اپنے مالیاتی امور چلاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تمام جدید معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خالصتاً سود سے پاک اور کارپوریٹ اجارہ داری سے آزاد تجارت کا آخری مرکز و محور صرف خلافتِ عثمانیہ کا سوق (بازار) تھا جس پر کسی قسم کا حکومتی ٹیکس نافذ نہیں ہوتا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ جیسی عظیم الشان طاقت اور اس کے اخراجات کے لئیے کوئی سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور نہ ہی ویلتھ ٹیکس کا طومار تھا۔۔ ہے نا حیرانی کی بات۔۔ اس لئے ہے کہ ان خلفاء تک رسولِ اکرم ؐ کی یہ احادیث تواتر کے ساتھ پہنچیں تھیں کہ اللہ کے نافذ کردہ محاصل کے علاوہ ایک اسلامی ریاست کو کسی قسم کا کوئی کاروباری ٹیکس نافذ کرنے کی قطعاء اجازت نہیں ہے۔ عربی میں ٹیکس کو ’’المماکسہ‘‘ کہتے ہیں اور تمام فقہا متفق ہیں کہ مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرنا اکبرالکبائر یعنی بدترین گناہوں میـں سے ایک ہے۔ چند احادیث یہاں درج کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ’’صاحبِ مکس (ٹیکس وصول کرنے والا) جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘ (مسند احمد، ابی داؤد)۔ پھر فرمایا، ’’جب نصف رات کو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، پس منادی کرنے والا ندا دیتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دعا قبول کی جائے، کوئی سائل جس کو عطا کیا جائے، کوئی پریشان حال اس کی کشادگی کی جائے۔ اللہ سب کی دعائیں قبول فرماتے ہیں بس سوائے زانیہ جو اپنی طرف بلائے یا عشار یعنی ٹیکس وصول کرنے والا‘‘ (مسنداحمد، الترغیب و الترھیب)۔ (جاری)