مشرق وسطیٰ کے تنازع کی سیاسی تعبیرات کو متشدد واقعات کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان اس کا براہ راست فریق نہیں ہے تاہم اس تنازعے کی تپش یہاں بھی پہنچتی ہے خاص طور پر مشکل یہ درپیش ہے کہ اس معاملے میں غیر جانبدار کیسے رہا جائے۔ مذہبی سطح کے سرگرم سیاسی ماحول اور متنوع پس منظر میں کسی ملک کے لئے سب سے اہم معاملہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کے عروج پر اپنے ہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ہے۔ اسی لئے کسی ایک جانب کے لئے کوئی واضح موقف اختیار کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ یہ اس سب کے باوجود ہے کہ پاکستان نے مشرق وسطیٰ کے خطے میں تزویراتی ، سفارتی اور معاشی امداد کے حصول کے لئے اپنی مسلم شناخت کوپورے زور سے منوایا ہے۔اگرچہ اس سارے عمل میں کسی قدر سیاسی قیمت اداکرکے پاکستان کو معاشی امداد ضرور ملی ہے۔ امریکی افواج کے ہاتھوں ایران کے اعلیٰ سطحی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت نے ایک بار پھر پاکستان کو ایسی صورتحال میں ڈال دیا ہے جہاں اسے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ فی الحال ہم نے کامیابی سے فریقین کو اپنی غیرجانبداری کا یقین دلایا ہے لیکن اگر ایران اور امریکہ کے مابین براہ راست جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ بار گراں اٹھانا مزید مشکل ہوجائیگا۔ نام نہاد مسلم امہ اگرچہ سماجی، ثقافتی اور فکری حوالوں سے مربوط نہیں ہے اور یہ اس امر میں اس لئے بھی حق بجانب ہے کہ اس کے رکن ممالک ان میدانوں میں متنوع اقدار کے حامل ہیں لیکن مشرق وسطیٰ میں ہونیوالی سیاسی سرگرمیوں سے سبھی متاثر ہورہے ہیں۔ خطے میں نے والی کسی بھی سیاسی تبدیلی سے مسلم اکثریتی ممالک یہ خطرات لاحق ہیں کہ اس کے سبب مذہبی انتہائ￿ پسندی میں اضافہ ہوجائے گااور فرقہ وارانہ تقسیم بہت گہری ہوجائے گی۔ اس کے نتیجے میں اس دلیل کو بھی تقویت ملتی ہے کہ انتہائ￿ پسندی ایک سیاسی مظہر ہے جو مذہبی احساسات سے پروان چڑھتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ خلیجی ممالک نے خاص طور پر سعودی عرب اورایران نے دیگر مسلم معاشروں میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا ہے اور وہاں اپنی پراکسیز بھی انہی خطوط پہ ترتیب دی ہیں۔ یہ پراکسیاں ان معاشروں کے عوام الناس کے جذبات کو متاثر کرتی ہیں۔ پاکستان کے لئے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کی اہمیت اس کے جغرافیائی مقام اور مضبوط فوج کے سبب مزید اہم ہوجاتی ہے۔ ایران کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے ساتھ براہ راست جنگ کی صورت میں پاکستان اس کے مخالف کیمپ کا ساتھ دے سکتا ہے۔ ایران نے ناصرف پاکستان میں سرمایہ کاری کررکھی ہے اوربلوچستان، سندھ کے کچھ اضلاع اور جنوب پنجاب تک کی آئل مارکیٹ پہ اپنا اثرونفوذ قائم کررکھا ہے۔ بلوچستان میں نا صرف تیل کی کھپت کا بڑا حصہ قانونی و غیرقانونی طور پر ایران سے درآمد کیا جاتا ہے بلکہ اشیائے خوردنوش سے لے کر تعمیرات کے سامان تک متفرق اشیائ￿ ایران بھی سے ہی آتی ہیں۔ غیررسمی تجارت کا یہ مایہ جال ہمارے ہاں کی کمزور معیشت اور بدحال طرز حکمرانی کے سبب پھل پھول رہا ہے۔ جہاں تک پراکسیز کی بات ہے تو مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشائی ریاستوں نے اس میدان میں خوب نام کمایاہے۔ ان ریاستوں نے اپنے ‘اثاثوں’ کی تعمیر اس تزویراتی تصور پہ کی ہے کہ سیاسی طور پر کمزور ریاستوں کے لئے پراکیسز سستا ترین متبادل ہیں۔پاکستان مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی طرف سے کھڑی کی گئی ان پراکسیز کی آپسی جنگ سے بہت متاثر ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ سال 2019 ء میں جب ملک بھر میں دہشتگردی کے عمومی واقعات میں کمی آئی تھی تب بھی 14واقعات پیش آئے تھے اور ان میں سے کئی بہت بڑے نقصان کا سبب بنے تھے۔ پاکستان نے تاریخی تناظر میں اپنی غیرجانبدار پوزیشن کا عملی اظہار اس وقت کیا جب اس نے یمن میں سعودی عرب کی معاونت کے لئے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کیا۔ سیاسی اور سفارتی سطح پہ اس غیرجانبدار پوزیشن کو بہت اہمیت دی گئی۔ پاکستان کے اپنے معاشی، سیاسی اورجغرافیائی مسائل ہیں جس میں بھارت کے زیر تسلط کشمیر اور افغانستان سرفہرست ہیں۔ وہ افغان مفاہمتی عمل میں نئی حکمت عملی کے سبب عالمی دنیا کی سفارتی و سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کوشاں ہے جو اس کی معیشت اور کشمیر پراس کی پوزیشن کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرنے جیسے معاملے پر پاکستان اپنے عرب دوستوں سے مکمل سفارتی مدد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس معاملے پر بظاہر عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن جب کبھی انہیں ضرورت ہوئی تو وہ پاکستان سے غیر مشروط حمایت کا تقاضا کریں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ معاشی طور پر مضبوط پاکستان ہی اپنی ترجیحات واضح کرنے میں آزاد ہوسکتا ہے۔لیکن ملک کو اپنے ہاں عدم برداشت اور انتہاء پسندی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کو بھی اپنی ترجیح سمجھنا ہوگا۔ ملکی سیاست میں ناصرف مربوط ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے بلکہ عرب دنیا اور ایران کے آپسی داؤ پیچ سے نکلنا بھی لازم ہے۔ تاہم اس کے لئے ضرورت اس مر کی ہے ایسے گروہوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے جو ‘دوسروں’ کے سیاسی مفادات کی خاطر پاکستان میںاس قسم کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں۔