ترکی کے وزیر صنعت و ٹیکنالوجی مصطفی ورانک نے آذربائیجان کے دورہ کے موقع پر ذرائع ابلاغ کو پاکستان‘ ترکی اور آذربائیجان کے درمیان خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں اہم معاہدے کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تینوں ملک خلائی ٹیکنالوجی میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ ترک وزیر صنعت نے آگاہ کیا کہ تینوں دوست ممالک کے مابین معاہدے پر عنقریب دستخط کر دیے جائیں گے۔ 9فروری کو ترک صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کے دس سالہ خلائی پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگلے دس برسوں میں ترکی اپنے خلاباز خلا میں بھیجنے‘ جدید جنریشن کے سیٹلائٹ تیار کرنے‘ خلائی اسٹیشن قائم کرنے اور 2023ء میں چاند پر پہنچنے کے اہداف حاصل کرے گا۔ ترکی نے حال ہی میں اپنا کمیونی کیشن سیٹلائٹ کامیابی سے خلائی مدار میں پہنچایا ہے۔ پاکستان‘ ترکی اور آذربائیجان خطے میں سٹریٹجک شراکت داری کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں ۔ تینوں ممالک کا مضبوط رشتہ چند ماہ پہلے آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین جنگ میں ابھر کر سامنے آیا۔ آذربائیجان نے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے مایوس ہو کر آرمینیا کے زیر قبضہ اپنا علاقہ نکورنوکارا باخ آزاد کرایا۔ اس تعاون کے مثبت اثرات پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات پر مرتب ہوئے ہیں‘ ترکی اور آذربائیجان پہلے سے سٹریٹجک معاہدوں سے منسلک ہیں۔ پاکستان کی یہ نئی حکمت عملی ایک طرف سفارتی اور سیاسی تعلقات کو نئے توازن اور صف بندی سے ہم آہنگ کرنے کا باعث بن رہی ہے دوسری طرف دفاعی ‘معاشی‘ صنعتی اور خلائی سائنس کے شعبوں میں جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی کا حصول آسان ہو رہا ہے۔ تینوں ممالک کا خلائی شعبے میں اشتراک انہیں مستقبل کی شراکت داری سے جوڑ رہا ہے۔ پاکستان نے اپنا پہلا کمیونیکیشن سیٹلائف 2011ء میں خلا میں بھیجا۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔2018ء میں پاکستان نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ خلا میں بھیجا۔ یہ سیٹلائٹس پاکستان اور چین کے اشتراک سے خلا میں بھیجے گئے۔2014ء اس لحاظ سے یادگار سال ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جس نے خود کو امریکہ کے جی پی ایس سسٹم سے الگ کر کے چین کے بیڈو سسٹم سے جوڑ لیا۔ پاکستان کا دفاعی شعبہ اس وقت امریکہ کے گلوبل پوزیشننگ سسٹم کا محتاج نہیں رہا۔ پاکستان نے 2040ء کے لئے کئی خلائی اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔ چین اور پھر ترکی و آذربائیجان سے تعاون ملنے کے بعد پاکستان اپنے اہداف کو زیادہ بہتر انداز میں حاصل کر سکے گا۔ یہ اشتراک اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پڑوسی ملک بھارت تیزی سے خلائی ترقی کر رہا ہے۔بھارت نے گزشتہ برس اپنا ایک خلائی مشن مریخ کے لئے روانہ کیا تھا ۔خلائی ٹیکنالوجی کے ضمن میں بھارت امریکہ اور اسرائیل سے بھی مدد حاصل کر رہا ہے۔بھارت جنوبی ایشیا پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے لئے خلائی ٹیکنالوجی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے، جس سے وہ پاکستان کے مفادات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ مشکل اقتصادی، سیاسی اور دفاعی مشکلات میں گھرے رہنے کے باوجود آخر پاکستان کو اتنا مہنگا خلائی پروگرام شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب سے پہلے ہم خلائی تحقیق کے لیے ناسا کا سیٹلائٹ استعمال کرتے تھے اور اس کا کرایہ ادا کیا جاتا تھا، لیکن جب اپنی ٹیکنالوجی ہو گی تو ہم اس صنعت میں خود کفیل ہو جائیں گے اور سپیس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بائی پروڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں۔ اس طرح معیشت بہتر ہو گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہم بینڈ وڈتھ کے لیے دبئی وغیرہ سے رجوع کرتے رہے ہیں، ہماری اپنی بینڈ وڈتھ ہو نے سے کمیونیکیشن سسٹم ترقی کرے گا اور روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔جدید دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بالخصوص جغرافیائی انفارمیشن سسٹم کی اہمیت اور ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جس کی مدد سے ملک کے چپے چپے کے نقشے ہر شہری کو ایک چھوٹی موبائل فون نما سکرین پر دستیاب ہوسکیں گے۔ یہ بھی خلائی سائنس کی ترقی سے ہی ممکن ہے، جو صارفین کو بہت سی بڑی پریشانیوں سے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔ خلائی سائنس کو محض عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سیماہرینخبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے، ’’امریکا اور روس دونوں خلائی سائنس میں بہت آگے ہیں۔ امریکا نے اسے سول پروگراموں اور اپنی معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کیا مگر روس نے اسے محض عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا تو روس کی معیشت خراب ہوتی گئی اور امریکی معیشت بہتر رہی۔ ظاہر ہے پاکستان کو سکیورٹی کے مسائل ہیں ۔یہاں خلائی ٹیکنالوجی دفاعی مقاصد کے لیے تو استعمال ہو گی لیکن ضروری ہے کہ اسے سول مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ خلائی تحقیق کے پاکستانی ادارے سپارکو کے مطابق اسپیس پروگرام 2040 کے مقاصد میں سیٹلائٹ سازی میں مہارت کا حصول، خلائی طب کے شعبے میں مہارت اور ملک کے اندر سماجی اور اقتصادی شعبوں کی ترقی بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 60ء کی دہائی میں پاکستانی سائنس دانوں نے قومی سطح پر خلائی پروگرام کی بنیاد رکھنے کا معاملہ اٹھایا تھا مگر تب سے پاک سیٹ آئی آر کو خلاء میں چھوڑنے تک چار قیمتی دہائیاں بیت گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان،ترکی اور آزربائیجان کے اشتراک سے جس خلائی پروگرام کی بنیاد رکھیجا رہی ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کی زندگی پر کیا مثبت اثرات مرتب کرے گا۔