2021 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں خواتین کی تعداد 109 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں خواتین کی تعداد 29 ملین سے بڑھ کر 109 ملین تک پہنچ گئی ہے تاہم اس آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد نے جہاں بلاشبہ افرادی قوت میں اضافہ کیا ہے وہیں خواتین کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہاں پر میرا موضوع سخن پاکستان کی گھریلو خواتین ہیں جو صبح سے لے کر شام تک اور رات سے لے کر صبح تک اپنے گھر، شوہر، بچوں اور گھر میں موجود بوڑھے بزرگوں اور خاندان کی دیکھ بھال اور پرورش میں مشغول رہتی ہیں۔ اگر گھر کا سربراہ گھر سے باہر روزگار تلاش کرنے ، انتھک محنت کے بعد اپنے بیوی بچوں کے لیے پیسہ کما کر لانے کی ذمہ داری نبھا رہا ہے تو بلاشبہ اتنی ہی انتھک محنت گھر میں بیٹھی وہ گھریلو خواتین بھی کر رہی ہیں جن کے بارے میں عموماً بات نہیں کی جاتی اور نا ہی گھریلو خواتین کے مسائل کو اجاگر کر کے انکا حل تلاش کیا جاتاہے۔ بلاشبہ جس طرح گھر سے باہر کام کرنے والے مرد و زن شدید قسم کے چیلنجر سے گزرتے ہیں اسی طرح گھر میں بیٹھی یہ تمام خواتین بھی بہت سی آزمائشوں سے گزر رہی ہوتی ہیں۔پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جو آئے روز کسی نا کسی "نازک دور " سے گزر رہا ہوتا ہے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اچھی طرح سے پاکستان کے اندرونی و بیرونی سیاسی، معاشی ، معاشرتی اور سماجی مسائل سے باخبر ہیں لیکن اس کشمکش کے بیچ عوام جس بدحالی دوچار ہوتی ہے وہ ایک درد دل رکھنے والے انسان کیلئے بہت تکلیف دہ بات ہے۔ پاکستان میں گھریلو خواتین بیشمار مسائل و مشکلات کا شکار ہیں جن میں شدید مہنگائی سے نمٹتے ہوئے گھر کا بجٹ چلانا، گھریلو جسمانی و ذہنی تشدد سہنا، جائیداد سے وارثتی حصہ نا ملنا، کم آمدنی اور وسائل کی کمی کے ہوتے ہوئے ناقص خوارک کیساتھ بچوں کو پیدا کرنا اور پالنا، کسی ناگہانی آفت، بیماری سے نمٹنا اور دیگر عائلی ذمہ داریوں کو پورا کرنا شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین جو اجتماعی خاندانی نظام کے تحت زندگی گزار رہی ہیں وہ زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرتی ہیں۔ کیونکہ ایسے گھر جہاں ایک سے زیادہ خاندان مل کے رہتے ہوں وہاں خرچ اخراجات کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس شدید طوفانی منہگائی کے دور میں ایک خاندان کے اخراجات اٹھانا انتہائی مشکل ہے کجا کہ دس سے پندرہ افراد پر مشتمل کنبے کو سنبھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گھر میں رہنے والی بیشتر خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں ،ان کی اکثریت کم پڑھی لکھی یعنی مڈل/ میٹرک پاس ہوتی ہے یا زیادہ سے زیادہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہوتی ہے لہٰذا ان کیلیے کوئی معقول نوکری کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے ٹیوشن پڑھانا، سلائی کڑھائی کرنا ، اجرت پہ کھانا بنانا، دوسرے گھروں میں کام کاج کرنا وغیرہ ان کی مجبوری ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی بھی مکمل ذمہ داری انکے سر پر ہوتی ہے۔ ان تمام بھاری ذمہ داریوں کیساتھ انہیں اپنے خاندانی رسم و رواج، رشتے دار، ہمسایوں اور پڑوسیوں سے تعلقات بھی نبھانے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر ، انجینیئر ، وکیل، جج، فوج، تعلیم اور دیگر شعبوں میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سنبھالنے والی خواتین کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور سراہا جاتا ہے اور یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر کیساتھ اپنے پیشے سے انصاف کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ بیک وقت ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے ان خواتین کو مردوں سے دگنی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے بحثیت مجموعی/ بحثیت قوم کبھی یہ سوچا کہ ہمیں اس مقام تک پہنچانے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں ان گھریلو خواتین کی کتنی بے لوث خدمات شامل ہیں۔ یہ گھر کے تمام کام جیسے کہ پورے کنبے کیلیے کھانا پکانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، استری کرنا، صفائی ستھرائی کرنا، باورچی خانے کی دیکھ بھال کرنا، بچوں اور شوہر کی صحت کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں لیکن اس کے بدلے میں انہیں صرف "ہاؤس وائف" اور " گھر کے کام بھلا کوئی کام ہیں" اور " گھر پہ رہ کے تم کرتی ہی کیا ہو" جیسے فرسودہ اور بے قدری کرنے والے جملے سننے پڑتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پورے پاکستان کی گھریلو خواتین محض ایک دن کیلئے اپنے تمام کام کرنا روک دیں تو باہر کا سارا نظام بھی ٹھپ ہو جائے گا۔ پیشہ ور مرد حضرات ، سکول کالج اور یونیورسٹی جانے والے طلباء و طالبات کوئی بھی وقت پہ اپنے کاموں پر نہیں پہنچ پائے گا جس سے ایک ہی دن میں چلتی معیشت کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا گھریلو خواتین کے دیگر مسائل کو جاننے اور انکا حل نکالنے کیساتھ ساتھ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ ان کی بے لوث خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز کر کے انکی ناقدری نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرے کے تمام طبقات کو اپنے گھروں میں بیٹھی ان خواتین کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہیے جو بلا معاوضہ پاکستان کو چلانے کیلئے ایک بھاری افرادی قوت تیار کر کے دیتی ہیں۔ نیز حکومتی سطح پر انکے حقوق کے تحفظ کیلئے قابلِ قدر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ گھریلو تشدد ، قتل، جسمانی مارپیٹ اور ذہنی اذیت دیے جانے والے واقعات کی روک تھام کے علاوہ مطلقہ اور بیوہ خواتین کی نگرانی اور نگہداشت کیلئے الگ سے ادارے قائم کیے جانے چاہیں۔ خاندانی رسم و رواج اور جہالت پہ مبنی فرسودہ رسومات کے نتیجے میں ہونے والے ظلم جیسے ستی کیا جانا، کم عمری میں جبرا شادی ، ذاتی دشمنی کی بناء پر تیزاب پھینکنے جیسے سنگین جرائم پر حکومت کو سخت سے سخت سزا اور شدید بھاری جرمانے مقرر کرنے چاہیں۔ پاکستان کہنے کو تو ایک اسلامی ریاست ہے لیکن یہاں ظلم کا جو بازار گرم ہے اس کے سدباب لیے اور روک تھام کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات اور سیرت محمدیؐ کو گھر گھر رائج کیا جائے تاکہ تمام طبقات کو برابر حقوق ملیں جسکے وہ مستحق ہیں۔