طالبان کی قید میں اسے تقریباً دو سال بیت چکے تھے۔ وہ اور اس کا ساتھی امریکی پروفیسر کیون کنگ (Kevin King) کابل یونیورسٹی سے گھر کی طرف جاتے ہوئے اغواکر لئے گئے تھے۔ اگست 2016ء میں اغوا ہونے والے اس آسٹریلوی استاد ٹموتھی ویکس (Timothy weeks) اور اس کے امریکی ساتھی کا ابتدائی طور پراخبارات اور دیگر میڈیا میں کوئی تذکرہ تک نہ کیا گیا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ اس خبر کے افشا ہونے کو عالمی طاقتوں کے اتحاد کی ذلت اور لڑنے والے سپاہیوں کے حوصلے پست کرنے کی وجہ خیال کرتا تھا، اسی لئے اس نے ان دونوں کی رہائی کے لئے خفیہ آپریشن کا حکم جاری کیا۔ ان کے اغوا کے چند دن بعد ہی طالبان کے ایک ٹھکانے پر حملہ ہوا، جس میں سات لوگ جاں بحق ہوئے مگر یہ دونوں مغوی وہاں سے پہلے ہی منتقل کیے جاچکے تھے۔ اس حملے کے چھ ما ہ بعد جنوری 2017ء میں طالبان نے ان دونوں کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں ٹموتھی ویکس نے امریکی حکومت سے درخواست کی کہ وہ طالبان کے ساتھ ان دونوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کرے۔ اس نے کہا "The people who promised to take care of us and to help us when some thing went wrong, have forsaken their promise. we are here for no help and hope." ترجمہ: ’’وہ لوگ جنہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کچھ غلط ہو گیا تو وہ ہماری مدد کریں گے، اپنے وعدے کو بھول چکے ہیں۔ہم یہاں کسی مدد کے بغیر پڑے ہیں اور کسی امید سے محروم ہیں‘‘۔وہ ماں کو مخاطب کرتے ہوئے رو پڑا اور کہا "My mother, I know you are sick in the hospital and I may never see you again. I don't want to die here. I am alone and i am scared, and I dont have anybody to help me." ترجمہ:’’میری ماں، مجھے معلوم ہے کہ تم بیمار ہو اور ہسپتال میں ہو اور ممکن ہے میں تمہیں کبھی نہ دیکھ سکوں۔ میں یہاں مرنا نہیں چاہتا۔ میں اکیلا ہوں، خوفزدہ ہوں اور یہاں کوئی میرا مددگار نہیں‘‘۔ اس پہلی ویڈیو نے دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ اس ہنگامے کے باوجود بھی ان دونوں اساتذہ کے بارے میں عالمی طاقتوں نے وہ گرم جوشی نہ دکھائی جو وہ اپنی افواج یا سیکرٹ سروس کے افراد کی رہائی کے لئے دکھاتے ہیں۔ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اس کی مثال ہے۔ اس ویڈیو کے چھ ماہ بعد طالبان نے جون 2017ء میں ایک اور ویڈیو جاری کی۔ اس ویڈیو میں ٹموتھی ویکس نسبتاً بہتر اور پرسکون نظر آرہا تھا۔ اس نے کہا کہ طالبان کا اس کے ساتھ حسنِ سلوک بہت بہتر ہے، اسے خوراک ،ادویات اور چائے ملتی ہے اور نہانے کے لئے بھی شاندار بندبست موجود ہے۔ ان دونوں نے ایک بار پھر امریکی صدر اور آسٹریلوی وزیراعظم سے درخواست کی کہ ان کی رہائی کے لئے طالبان سے بات کی جائے۔ اس دوسری ویڈیو کے ساتھ طالبان نے اپنے جاری کردہ پیغام میں کہا کہ امریکی قیدی ’’کنگ‘‘ خطرناک حد تک دل اور گردوں کے مرض میں مبتلا ہے اور ہم حالتِ جنگ میں ہیں، اس لئے ہمارے پاس اس کی نگہداشت بہت مسٔلہ ہے۔ اس ویڈیو میں ٹموتھی ویکس اپنی حکومت سے بہت مایوس نظر آیا اور اس نے اپنے دوستوں اور خاندان کے افرادسے درخواست کی کہ وہ اس کی رہائی کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر مہم شروع کریں۔ لیکن اس کے دوستوں اور اہل خانہ کومختلف طریقوں سے خوفزدہ کیا گیا کہ اگر تم لوگوں نے اس معاملے کو زیادہ اہمیت دی تو ان کی رہائی کے لئے تاوان کی رقم بہت بڑھ جائے گی، کیونکہ آجکل اغوا برائے تاوان ایک بہت منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ اسی دوران رائٹرز(Reuters) کے اہم نمائندے ایوگینیا نووزینیا (Evagenia Novozhenina) نے ایک تجربہ کار مصالحت کار کا انٹرویو شائع کیا،جس نے دنیا بھر میں تقریباً سو سے زیادہ اغواکاروں کے ساتھ مغویوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کیے تھے۔اس نے دنیا بھر کے اغواکاروںسے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے طالبان کوتمام اغوا کاروں سے بالکل مختلف پایاہے۔ اس نے کہا "I can not think of a single case, either with female or male where they were using violence, torture, sexual assault, any thing like that. its just not the way the Afghan do it." ترجمہ:’’میں نہیں جانتا کہ کوئی ایک بھی مغوی مرد یا عورت ایسی ہے جس پر انہوں نے سختی کی ہو، تشدد یا جنسی درندگی یا ایسی کوئی اور حرکت کی ہو۔ یہ لوگ تو دیگر افغانوں سے بھی مختلف ہیں۔ــ‘‘ یہ وہ زمانہ تھا، جب طالبان کے مقابلے میں قیدیوں پر داعش کے مظالم اور اغوا برائے تاوان کی کہانیاں مغربی میڈیا اور پبلک میں زبان زدِ عام تھیں۔ برطانوی صحافی جیمز فولی (Jamees Foley)کو داعش نے بدترین تشدد کے بعد قتل کر دیا تھا اور دیگر قیدیوں کے بارے میں داعش کے بھاری تاوان وصول کرنے کے شواہد عام ہو چکے تھے۔ ایک جانب یہ خوف اور دوسری جانب امریکہ، کینڈا اور آسٹریلیا کی یہ سرکاری پالیسی کہ انہوں نے کوئی تاوان ادا نہیں کرنا۔معاملہ گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ اس مایوسی، تنہائی اور ناامیدی کے عالم میں دو سال بیت گئے۔ مئی2011ء کے ایک دن ٹموتھی ویکس کو اپنے اندر ایک روشنی سی محسوس ہوئی اور اس نے قید کے دوران اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ وہ کہتا ہے کہ اسے یوں لگا جیسے اس فیصلے نے مجھے جیل میں ایک نئی روحانی زندگی عطا کر دی ہو۔اسلام نے مجھے سکون، اطمینان اور مصائب سے لڑنے کا بے پناہ حوصلہ عطا کیا۔ شروع شروع میں طالبان کے مقامی کمانڈر اس کے اس فیصلے پر یقین نہیں کرتے تھے، بلکہ کچھ تو ناراض بھی ہوگئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے اس کی رہائی کے بدلے میں طالبان کے اہم ترین قیدیوں کی جو رہائی متوقع تھی وہ کھٹائی میں پڑ جائیگی۔ ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ ٹموتھی کے مسلمان ہونے کے بعد عالمی طاقتیں اسے اب پہلے جیسی اہمیت نہیں دیں گی۔ اس لئے اس نے مصلحتاً اپنے اسلام کو دنیا سے چھپائے رکھا۔آخرکار وہ دن آگیا جب ان دونوں استادوں کے بدلے میں اگست 2019ء میں جلال الدین حقانی کے بیٹے انس حقانی اور دیگر اہم طالبان کمانڈر رہا ہوئے تو ان کو بھی آزادی مل گئی۔ آسٹریلیا پہنچتے ہی جب ٹموتھی ویکس نے یہ اعلان کیا کہ وہ ایک سال قبل قید کے دوران ہی اسلام قبول کر چکا ہے تو سارا مغربی میڈیا چیخ اٹھا، کسی نے کہا یہ نفسیاتی مریض ہو چکا ہے، کوئی اسے ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘سے تعبیر کرنے لگا جس میں اغوا کار سے محبت ہو جاتی ہے، کچھ لوگوں نے تو اسے طالبان کی کٹھ پتلی (Puppet)تک کہہ دیا۔لیکن ان سب کے جواب میں اس نے فقط ایک فقرہ کہا "It's the decision I will never regret and it has changed the way I look the world" ترجمہ:’’یہ وہ فیصلہ ہے جس پر مجھے کبھی شرمندگی نہ ہوگی کیونکہ اس فیصلے نے تو میرادنیا کو دیکھنے کا انداز ہی بدل دیا ہے‘‘ ٹموتھی ویکس جس کا مسلمان نام ’’جبرائیل عمر‘‘ ہے، آج کے اس بدترین مسلمان مخالف پراپیگنڈے کے دور میں وہ مشعل راہ ہے جو اسلام کی حقانیت کی علامت ہے۔آج سے بیس سال قبل کا وہ منظر یاد آرہاہے، جب 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملوں کے فوراًبعد طالبان نے اپنی قید میںبرطانوی صحافی ’’ایوان رڈلی‘‘ کو رہا کیا تھا،رہائی کے بعد جب وہ تورخم بارڈرپہنچی تو کیمروں کی چکا چوند میں اس سے سوال کیاگیا، ’’طالبان کیسے تھے‘‘ تو جواب میںاس نے صرف دو الفاظ بولے ’’خوش اخلاق‘‘ (Courteous)اور ’’مہذب‘‘ (Cultured)اور اس کے یہ دو لفظ پورے سیکولر، لبرل میڈیا کے منہ پر زوردار دھماکہ تھے۔ہر طرف ایک سناٹا چھا گیا۔ایوان رڈلی نے برطانیہ جا کر اسلام قبول کر لیا اور اپنانام مریم رکھا۔ مریم رڈلی سے جبرائیل عمر تک کا سلسلہ ایک تاریخی حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ جب منگول مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے مگر کمال ہے اسلام کی حقانیت کا کہ فاتح نے مفتوح کا دین قبول کر لیاتھا۔اقبال نے کہا تھا ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے