کشمیرکاہرشہیدتحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زاور ایک ایسے روشن چراغ کے مانندہے کہ جواپنی شہادت سے قبل اپنی لوسے بے شمارچراغ روشن کرجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020ء تک سرزمین کشمیرپربھارتی جبروقہر کے باعث ایک کے بعد ایک چراغ گل ہوتاچلاجارہاہے لیکن یہ چراغ ختم نہیں ہورہے۔اگرچہ کشمیرکے ہرشہیدکی شہادت کی الگ الگ کہانی ہے لیکن سب ایک ہی عظیم مقصد ’’کشمیرکی آزادی ‘‘کے لئے اپنے جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ چندیوم قبل تہاڑ جیل کے سابق آفیسر سنیل گپتا نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں کہا کہ افضل گورو سے جینے کا حق صرف اور محض ایک الزام لگا کر چھینا گیا۔وہ کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔جیل آفیسرگپتاکاکہناہے کہ 9فروری 2013 ء کی صبح جب محمد افضل گورو کو چائے پیش کی گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد بتایا گیا کہ اب اپ کی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔تو انکے چہرے پر ایک پراعتماد مسکراہٹ آگئی۔میں حیران اور چونک سا گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ وہ بغیر کسی خوف وڈر کے پھانسی گھاٹ کی جانب چل پڑے۔ جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آزادی کے متوالوں کو پھانسی کے پھندوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا ہے۔ اپنے آپ کودنیا کی سب سے بڑی نام نہادجمہوریت کہلانے والے بھارت کے حکمرانوں نے نہایت غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوںکے جسدخا کی کو رسمی تجہیز و تکفین کے بغیر جیل کے صحن میں ہی دفن کر دیا لیکن ان کے اس طرزعمل نے کشمیری مسلمانوں کے سامنے کئی ایسی حقیقتیں جن پر دبیزپردے پڑے ہوئے تھے واشگاف کردیں ۔ تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زافضل گورواورمقبول بٹ جو بھارتی ظلم و ستم اور درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 11فروری 1984کومقبول بٹ کودہلی کی تہاڑ جیل میں جبکہ 9فروری 2013ء کو افضل گروکو پھانسی دی گئی۔لیکن ان دونوں عظیم شہادتوں نے جیسے حریت کے پروانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔دونوں تعلیم یافتہ اور خوش گفتار شخصیتیں تھیں۔ مقبول بٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ناپاک وجود کے خلاف عملی جدوجہدکی داغ بیل ڈالی اوراسلامیان کشمیرکوبھارتی غلامی سے نکلنے کے لئے مسلح جدوجہدکی راہ دکھادی ۔یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور مقبول بٹ شہید اور ان کے رفقائے کار کا ان تحریکوں سے متاثر ہونا بھی ناگزیر تھا ان ممالک میں الجیریا، فلسطین اور ویت نام وغیرہ شامل تھے۔ڈوگرہ استبدادکے خلاف کشمیری مسلمانوں کے اعلان جہاد کے بعدیہ پہلا موقع تھاکہ جب مقبول بٹ نے 12 جولائی 1965ء کو میر پور میں محاذ رائے شماری کے ایک پروگرام میں عسکری ونگ کی تجویز اور قرارداد پیش کی تاکہ جلد سے جلد ریاست جموں کشمیر کو ہندو سامراج کے چنگل سے آزادی دلائی جا سکے۔ آپ مقبوضہ کشمیرمیںمئی 1976 ء کو ایک ہندوبینک کلرک کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور11فروری 1984ء کی صبح مقبول بٹ شہید کو تختہ دار پر جھلا دیا گیا۔آپ کے آخری الفاظ تھے مجھے کل پھانسی دے دی جائے گی اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ اس سچائی اور حق کو جان جائیں گے جن کے لیے میں ان تمام بر سوں میں لڑتا رہا اور جس کے لیے میں آج خود کو قربان کر رہا ہوں۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے افضل گورو کی آنکھوں میںآلائے کلمہ الحق کی بالادستی اورکشمیرکی آزادی کے خواب تھے اوردل میں اسکی آرزو تھی۔لیکن ان کے یہ سارے خواب یہ سارے ارمان اور یہ ساری آرزوئیں اس وقت بکھرتے چلے گئے۔ جب افضل گورو کو2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پرمسلح حملے کے الزام پر حراست میں لے لیا گیااور2013ء میں دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دارپرچڑھایا۔افضل گورو کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اب ہر کشمیری، کے اندر ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ہے۔ جو بھارتی ریاستی دہشت گردی تو جھیل رہے ہیں لیکن ان کے دلوں میں روشن آزادی کی شمع کو کوئی مودی اورنہ ہی اس کی فوج بجھا سکتی۔ ناموربھارتی دانشور اور مصنفہ ارون دتی رائے نے افضل گوروکے مقدمے اور سزائے موت کے فیصلے پر مرتبہ ایک کتاب کا دیباچہ تحریر کیا ہے۔ کتاب افضل گوروکی سزائے موت سے پہلے اور بعد میں لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کے دیباچے کے کچھ اقتباسات بھارت کے ہفت روزہ آئوٹ لک کے ایک شمارے میں منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ارون دتی رائے نے بھارت کے ایک سابق ایڈووکیٹ جنرل کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ جس رازداری سے دنیا سے چھپا کر افضل گوروکی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ہے اس نے اس اقدام کی قانونی حیثیت پر سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ اپریل 2012 ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایسے ملزمان کی سزائوں پر عملدرآمد کے مقدمے کی سماعت مکمل کی تھی۔جو سزا سے پہلے ہی طویل عرصہ قید خانے میںگزار چکے تھے اور افضل گورو کا معاملہ بھی اس مقدمے میں شامل تھا۔ حکومت نے اس کیس کے متوقع فیصلے کے نتائج سے بچنے کے لیے اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اسے تختہ دار پر لٹکانے کیلئے غیر معمولی عجلت اور بے تابی کا مظاہرہ کیا مبادا افضل گرو کو پھانسی کے تختے پر لٹکانے کا یہ نادر موقع ہاتھ سے نکل جائے۔ عام آدمی قانونی موشگافیوں اور مقدمے کی تفصیلات میں الجھے بغیر یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا افضل گوروقصور وار تھے یا بے گناہ؟افضل گوروپر عائد کردہ الزام کہ وہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ آوروں کا شناسا ساتھی تھا، کبھی بھی ثابت نہیںہو سکا۔استغاثہ نے یہ دعویٰ کیا ہی نہیں کہ وہ حملہ آوروں میں شامل تھا یا یہ کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہے۔ اس لیے بھارتی سپریم کورٹ نے سزائے موت کا متنازعہ فیصلہ کسی براہ راست شہادت کی بنیاد پر نہیں دیا بلکہ صرف واقعاتی شہادت کا کمزور سہارا لیا۔ درحقیقت یہ فیصلہ بھارتی معاشرے کے اجتماعی ذہن کو مطمئن کرنے کی ایک کوشش کے سوا اور کچھ نہیں۔بدقسمتی سے عدالت اس کام میں ناکام رہی اور افضل گرو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔