پنجاب حکومت نے صوبہ کو مالی مشکلات سے نکالنے اور مستقبل میں مزید قرضوں سے نجات کیلئے مالی سال-21 2020ء میں نئے قرضے نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق مئی 2019ء تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 105ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 6 مالی سال کے دوران حکومت نے 26 ارب 19 کروڑ ڈالر سے زائد غیر ملکی قرض لیا اور ان چھ برسوں میں 7 ارب ڈالر کا ان قرضوں پر سود لگا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بھی غیر ملکی قرض حاصل کرنے کا اختیار مل گیا تھا جس کے بعد نہ صرف ملکی قرضوں میں بلکہ کرپشن میں اضافہ بھی ہوا۔ اس تاثر کو یکسر مسترد کرنا اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ حالیہ قرضہ انکوائری کمیشن نے گزشتہ دس برس میں لئے گئے 24 ہزار ارب روپے کے قرضوں میں ایک ہزار ارب کی خوردبرد کا انکشاف کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیر ملکی قرضے نہ صرف پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ ہیں بلکہ ان کا غلط استعمال قومی ترقی و خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اس لحاظ سے پنجاب حکومت کا مالی سال2020-21ء کے دوران غیرملکی قرضے نہ لینے اور پہلے سے لئے گئے قرض کے ترقیاتی شعبے میں استعمال کو یقینی بنانے کا فیصلہ خوش آئند اور باقی صوبوں اور وفاق کے لئے لائق تقلید ہے۔ بہتر ہو گا وفاقی حکومت بھی غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے اور خود انحصاری کی پالیسی اپنائے تاکہ پاکستان کو پائیدار ترقی نصیب ہو سکے۔