گزشتہ کالم کے ردعمل میں تین باتیں پوچھی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ فضل اللہ کو اتنی ڈھیل کیوں دی گئی کہ وہ ایک آفت بن گیا ؟ دوسری یہ کہ خیبر پختون خوا کب تک پاکستان اور افغانستان کے بیچ میدان جنگ بنا رہے گا ؟ اور تیسری یہ کہ پاکستان کے دفاع کی جنگ پختون علاقوں میں لڑنے کے نتیجے میں پختونوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ کون پورا کرے گا ؟ پاکستان میں رہنے والے پختونوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک وحدت بننے کے بجائے تین طرح کے قانونی نظاموں میں بٹے چلے آئے ہیں۔ ایک وہ پختون ہیں جو پنجاب اور سندھ کے شہریوں کی طرح ملک کے عام روبعمل نظام کا حصہ چلے آئے ہیں۔ دوسرے وہ پختون ہیں جو ’’فاٹا‘‘ نظام میں رہتے آئے ہیں۔ فاٹا کا مطلب یہ کہ وہ پختون علاقے جو کسی صوبے کے نہیں وفاق کے زیر انتظام چلے آئے ہیں اور جو نیم خود مختار رہے ہیں۔ انہیں پاکستان کے مروجہ قوانین سے استثناء بھی حاصل رہا ہے، پاکستان کی قومی اسمبلی کے دائرہ قانون سازی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار سماعت سے بھی باہر رہے ہیں۔ تیسرے وہ پختون ہیں جو ’’پاٹا‘‘ بندوبست کا لطف لیتے آئے ہیں۔ یہ وہ پختون ہیں جو رہے تو صوبے کے زیر انتظام ہیں لیکن کئی وفاقی و تمام صوبائی قوانین سے مستثنیٰ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سماعت سے باہر رہے ہیں۔ اب پہلے سوال کا جواب ایک دلچسپ تضاد کی صورت دیکھئے ! فاٹا اور پاٹا قوانین کے تحت ریاست پر کچھ پابندیاں بھی لاگو تھیں جن کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس طرح کی چھوٹ حاصل نہیں تھی جس طرح ملک کے عام بندوبستی علاقوں میں ہے۔ چنانچہ پختون قوم پرست سوات میں تو یہ کہتے ہیں کہ فضل اللہ کو اتنی ڈھیل کیوں دی گئی کہ وہ بے قابو ہوگیا ؟ لیکن یہی قوم پرست فاٹا میں اس کے الٹ بات کہتے ہوئے فرماتے ہیں مشرف نے افغانستان میں امریکی حملہ ہوتے ہی فاٹا میں فوج کیوں داخل کی ؟ گویا جہاں بروقت تدارک ہوا وہاں بروقت تدارک پر اعتراض اور جہاں فاٹا کے تجربے کی بنیاد پر ڈھیل دیدی گئی وہاں بروقت تدارک نہ کرنے پر اعتراض۔ یہ ہے پختون قوم پرستوں کا وہ پہلا ڈھکوسلہ جس کی بنیاد پر یہ سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ اب آئیے دوسرے سوال پر۔ جب پختون قوم پرستوں کو کوئی ادنیٰ سا ایشو بھی کھیلنے کے لئے مل جائے تو وہ باور یہ کراتے ہیں کہ پختونوں کو دو صوبوں اور تین قسم کے نظاموں میں بانٹ کر ان کے ساتھ بہت ہی بڑا جبر کیا گیا۔ لیکن کیا یہ حیرت انگیز امر نہیں کہ پختون قوم پرستوں نے کبھی بھی اس جبر کے خاتمے کے لئے کوئی تحریک نہیں چلائی ؟ صرف یہی نہیں کہ اس ’’جبر‘‘ کے خاتمے کے لئے کوئی تحریک نہیں چلائی بلکہ جب انضمام کا مرحلہ آیا تو محمود خان اچکزئی تو اس کے خلاف میدان میں آگئے۔ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ یہ تین طرح کے بندوبست تین طرح کے پختون علاقوں میں رہنے والے پختونوں ہی کی چاہت اور مطالبے پر ہوئے تھے۔ افغان سرحد کے ساتھ ملحقہ سات سابق فاٹا ایجنسیاں قائد اعظم کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہوئیں اور فاٹا کا استثنائی نظام اسی معاہدے کے تحت خود ان ایجنسیوں کے لوگوں نے مانگا تھا۔ اسی طرح سوات، دیر، چترال، ژوب، لورالائی اور قلات کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ خود مختاری کی شرط پر الحاق کیا جو ایک مستقل استثنائی نظام تھا۔ چنانچہ یہ ریاستیں 1969ء تک خود مختاری کا یوں لطف لیتی رہیں کہ ان کے والی اور نواب پندرہ توپوں کی سلامی کے بھی حقدار رہے۔ 1969ء میں تمام ریاستیں پاکستان میں ضم کرلی گئیں تو ملاکنڈ ڈویژن میں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ ہمیں تو شرعی قوانین چاہئیں۔ صرف شرعی قوانین ہی نہیں بلکہ ملک کے ریگولر نظام سے کچھ مزید استثنائیں بھی طلب کی گئیں۔ یوں ’’پاٹا‘‘ کی چھتری تلے ایک تیسرا بندوبست ایجاد کرلیا گیا۔ کیا کوئی بتائے گا کہ صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کیوں وجود میں آئی تھی ؟ اور ملاکنڈ ڈویژن میں تین بار ریاست سے تصادم کی نوبت کیوں آئی ؟ کیا یہ سب کچھ امتیازی قوانین اور استثناؤں کے حصول کے لئے نہ تھا ؟ ایک طرف آپ خودمختاری اور امتیازی نظام کے بھی مزے لیں، دوسری طرف کبھی باچاخان تو کبھی منظور پشتین کے ہاتھوںملنے والے افغانی لولی پوپ بھی چوسیں اور پھر یہ سوال بھی ہم ہی سے پوچھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کب تک افغانستان اور پاکستان کے مابین میدان جنگ بنا رہے گا ؟ اتنی معصومیت ؟ اب آئے تیسرے اور آخری سوال کی جانب۔ پختون قوم پرستوں کا یہ ایک بڑا دلچسپ طریقہ واردات رہا کہ ایک طرف خود ہی مطالبات کرکے اپنے لئے امتیازی نظام و قوانین حاصل کئے گئے اور جب ریاست کے ساتھ کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو فورا ًواویلا کیا گیا کہ ہمارے ساتھ تو بڑا ظلم ہورہا ہے، ہمیں تو امتیازی قوانین کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور دیگر علاقوں کی سادہ لوح پبلک یہی سوچتی رہ گئی کہ واقعی وہاں تو فاٹا ریگولیشنز اور پاٹا ریگولیشنز کے نام پر امتیازی قوانین ’’مسلط‘‘ ہیں لیکن جب بھی ریاست نے ان امتیازی قوانین کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی تو مزاحمت شروع کردی گئی۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی تازہ مثال آپ کے سامنے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب ہوتاکیوں رہا ہے ؟یہ سب اس زبردست مالی مفاد کے لئے ہوتا رہا ہے جسے ٹیکس سے استثناء کہا جاتا ہے۔ تنخواہ پر ٹیکس، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس ، جائیداد پر ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی اور پتہ نہیں کتنے اقسام کے ٹیکس ہیں جو ملک تمام شہریوں پر لاگو ہیں۔ لیکن فاٹا اور پاٹا دونوں ہی علاقوں کے شہری اس پورے ٹیکس نظام سے مستثنیٰ تھے۔ نہ ان کی تنخواہ سے ٹیکس کٹتا تھا، نہ انہیں انکم ٹیکس دینا پڑتا تھا اور نہ ہی کوئی ایکسائز ڈیوٹی۔ آپ صرف ایکسائز ڈیوٹی سے استثناء کا فائدہ دیکھئے کہ جو گاڑی مردان، صوابی، پشاور، گوجرانوالہ، لاہور، سکھر اور کراچی جیسے شہروں کے باسیوں کو 24 لاکھ کی خریدنی پڑتی تھی وہی گاڑی فاٹا اور پاٹا کے شہری صرف چھ لاکھ میں خرید کر مزے لے رہے تھے۔ جو گاڑی اسلام آباد، پشاور، لاہور اور کراچی میں 70 لاکھ روپے قیمت ہونے کی وجہ سے صرف بہت بڑے سیٹھ خرید سکتے تھے وہ فاٹا اور پاٹا میں متوسط شخص بھی استعمال کر سکتا تھا کیونکہ وہاں اس کی قیمت پندرہ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اگر مارے حیرت کے آپ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ہے تو پلیز سانسیں بحال کر لیجئے کیونکہ اصل فائدہ بتانا تو ابھی باقی ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا سمگلروں کی جنت کیوں کہلاتے ہیں ؟ کیونکہ فاٹا اور پاٹا کے لوگ ٹیکس اور ڈیوٹی سے مستثنیٰ تھے لہٰذا ان تک تو افغانستان سے بغیر کسی ٹیکس یا ڈیوٹی کے چیز پہنچ جاتی تھی اور قانونی طور پر ان کے لئے استعمال تھا بھی درست۔ ہونا یہ شروع ہوا کہ فاٹا اور پاٹا میں بیٹھے آدم خان اور حوا بی بی نے سوچا کہ جو ٹیکس فری کار مجھے چار لاکھ میں دستیاب ہے کیوں نہ ملک کے باقی شہریوں کو چھ لاکھ میں بیچنی شروع کردوں ؟ خریدار تو خریدے گا بھی بہت شوق سے کیونکہ یہی کار عام مارکیٹ سے اسے چوبیس لاکھ کی پڑے گی۔ یوں شروع ہوا سمگلنگ کا کھربوں روپے سالانہ کا وہ دہندہ جس میں پکڑی صرف اکا دکا کاریں جاتی ہیں کیونکہ وہ سڑکوں پر بھی آتی ہیں۔