گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ایک محفل میں طویل خطاب فرمایا جو ’’لائیو‘‘ نشر ہوا یوں ساری قوم مستفید ہوئی۔ خاصی طویل تقریر تھی۔ وزیر موصوف نے بڑی محنت سے وہ ساری باتیں قوم کو سمجھانے کی کوشش کی جو ابھی خود ان کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آئیں۔ بہرحال جو کچھ لوگوں کی سمجھ میں آیا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ کارکردگی دکھانے کے لئے مزید ڈیڑھ دو سال کی مہلت دی جائے۔ گویا تیسری بار توسیع مانگ لی۔ پہلی مدت کا تعین خود حکومت نے کیا تھا اور اعلان نما وعدہ کیا تھا کہ سو روز کے اندر اندر نتائج ملیں گے۔ تبدیلی کو سبھی دیکھیں گے۔ تبدیلی کی مرغی لیکن بدستور کڑک رہی اور سو دن پورے ہونے لگے تو چھ ماہ کی توسیع اور حاصل کی۔ میڈیا کو مشورہ دیا کہ چھ ماہ تک سب اچھا ہی اچھا لکھو‘ چھ ماہ بعد سب اچھا ہی اچھا ہو جائے گا۔ اچھی اچھی خبروں کا موسم آ جائے گا۔ میڈیا نے عمل کیا اور ’’سب ہرا ہے‘‘ کی ڈاکیومنٹریز چلنے لگیں اور پھر مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اچھی خبروں کی ایسی بارش ہوئی کہ دیواریں ڈھینے لگیں۔ چھتیں ٹپکنے لگیں‘ کوچوں میں ’’ھڑ‘‘ آ گیا‘ وہی ماجرا ہوا کہ آنکھیں تو کھول‘ شہرکو اچھی خبروں کا سیلاب لے گیا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ کا خطاب اکیلے نہیں سنا‘ ساتھ دو چار احباب اور بھی تھے اور ان میں ایک جہاں دیدہ استاد معاشیات بھی تشریف فرما تھے۔ وہ بعدمیں یوں گویا ہوئے کہ یہاں‘ وہ جو ہر ایک نے مہنگائی کے طوفان کی رٹ لگا رکھی ہے‘ بہت غلط ہے ۔ عرض کیا محترم کیا مطلب‘ کیا طوفان تو ابھی آنا ہے۔ انہوں نے وزیر خزانہ ہی کی طرح تقریر فرمائی۔ اس فرق کے ساتھ کہ ان کی بات سمجھ میں آ رہی تھی۔ یہ بھی کہا کہ پانامہ ایکشن پلان کے دو برس میں ملکی معیشت کو کتنے ہزار ارب کا نقصان ہوا۔ یہ جانتے ہوئے انہوں نے تفصیل بھی بتائی اور اس کے ثمرات کا تخمینہ بھی بیان فرمایا جو سخت ڈرا دینے بلکہ مایوس کرنے والا تھا۔ لب لباب کیا تھا‘ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ خود سمجھدار ہیں‘ سمجھ جائیے کہ کیا ہونے والا ہے۔ نہیں سمجھ سکتے تو ’’قیامت کا منظر‘‘ نامی کتاب پڑھ لیجیے۔ ٭٭٭٭٭ ایک خبر یہ بھی چھپی ہے کہ تبدیلی کو زیادہ بامعنی بنانے کے لئے ریٹائرڈ ملازموں کی پنشن ختم کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے‘ گرچہ ابھی نافذ ہونا باقی ہے۔ ظاہر ہے صرف پنشن کی مد ختم کر دی جائے تو ہر سال کئی ارب روپے کی بچت ہو گی جو بھینسیں فروخت کرنے سے ہونے والی بچت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی۔ اس سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی اور خوشحالی کی لہریں دستک دینا شروع کر دیں گی۔ ریٹائرڈ ملازمین یہ خبر پڑھ کرگھبرائیں مت‘ سنیں کہ ھاتف غیبی سے کیا صدا دے رہا ہے۔ کہہ رہا ہے گھبرانا مت‘ ہم آپ لوگوں کو کشکول کے ٹھوٹھے دیں گے‘ کیکر کی لکڑی کا ڈنڈا دیں گے‘ گلے میں ڈالنے کے لئے لکڑی کے منکوں کی مالا دیں گے۔ ملگجے رنگ کا چولا دیں گے۔ گلی گلی صدا لگانے کا ہنر سکھائیں گے۔ آپ کو خوشحالی کی منزل تک پہنچا کر دم لیں گے۔ ٭٭٭٭٭ فیصلے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملازموں کی مدت ملازمت بھی کم کر دی جائے گی تاکہ جلدی جلدی ریٹائر ہوں اور اس طرح بچت کا دائرہ بڑھے۔ یہ بھی بہت اچھا فیصلہ ہے اور کسی بہت ہی ذہین آدمی کے ذہن رسا کی فکر پختہ کا نتیجہ ہے۔ ویسے ایک فیصلہ اس سے بھی اچھا ہو سکتا ہے۔ سرکاری ملازمت کا کھاتا سرے سے ہی بند کر دیا جائے۔ بے بہا بچت ہو گی۔ آنے والے دنوں میں کام رہے گا نہ کام کرنے والوں کی ضرورت۔ سرکاری محکمے غیر ضروری ہو جائیں گے۔ اس غیر ضروری بوجھ سے نجات ابھی کیوں نہ حاصل کر لی جائے۔ جو کل کرنا سو آج کرو…! ٭٭٭٭٭ پشاور سے ایک دلچسپ خبر آئی ہے۔ وہاں شہریوں نے ’’قومی جرگہ‘‘ نام کی تنظیم بنائی ہے۔ اس نے وہاںبننے والے دنیا کے آٹھویں عجوبے المعروف بی آر ٹی(میٹرو) کی تباہ کاری کے خلاف احتجاج کیا ہے اور اربوں روپے برباد کرنے اور شہر کو کھنڈر بنانے کے خلاف حکومت پر رپٹ لکھوانے کی دھمکی دی ہے۔ان حضرات کو مشورہ ہے کہ احتجاج ضرور کریں کہ دل لگا رہے گا لیکن رپٹ کا خیال دل سے نکال دیں۔ بے کار جائے گی۔ پولیس کو نظر آئے گی نہ نیب کو۔ پی ٹی آئی کے خلاف نیب میں جو بھی کیس جاتا ہے‘ وہ اسے منجمد۔شمالی میں بھیج دیتا ہے۔ یہ بھی وہیں جائے گی۔ آپ کو نتیجہ چاہیے یعنی آپ چاہتے ہیں کہ ریفرنس بنے‘ گرفتاریاں ہوں اور رونق لگے؟۔ ایسا ہے تو پھر یہ کیجئے کہ بی آر ٹی کا پرچہ شہباز شریف یا مراد علی شاہ کے خلاف کٹوا دیجیے پھر نیب کی پھرتیاں دیکھیے۔ ٭٭٭٭٭ بی آر ٹی کا عجوبہ اپنی جگہ ایسا بے مثال ہے کہ واللہ کیا کہیے کسی شاعر کا واقعہ یاد آتا ہے جس نے اپنی محبوبہ کی تخلیق کے اجزائے ترکیبی کا ذکر کیا تھا‘ کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ بڑی رنگین جوانی کی تخلیق میں حسن فطرت کی ہر شے کام آ گئی۔آسٹریلیا میں فطرت کا ایسا ہی ’’شاہکار ‘‘ پلیٹی لیس کے نام سے پایا جاتاہے۔ اس طرح کی سمندری مخلوق اس ایک اکیلی ذات میں اکٹھی ہو گئی ہے۔ سنتے تو یہی ہیں کہ یہ منصوبہ ایسا ہے کہ اب نہ ڈھانے کا ہے نہ آگے بڑھانے کا۔ پشاور کی زندگی جام ہو چکی۔ ایک مثبت اور تعمیری تجویز ہے کہ اسے جوں کا توں رکھا جائے۔ اور پشاور شہر کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔ اسے ’’عجوبہ‘‘ کا نام دے کر عالمی ٹورازم کے لئے کھول دیا جائے۔ اتنے سیاح آئیں گے زرمبادلہ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آج اس منصوبے کی ذمہ داری سابق وزیر اعلیٰ لے رہے ہیں نہ موجودہ پھر دونوں میں دوڑ لگے گی۔ وہ کہیں گے‘ میں نے بنایا‘ یہ کہیں گے نہیں‘ میں نے بنایا۔