والی آسی نے آرزو کو آگ کہتے ہوئے سوال کیا تھا کہ اگر پائوں جلتے ہیں تو پھرہم آگ پر چلنے کے لئے گھر سے ہی کیوں نکلتے ہیں؟ مگر یہ نہیں بتایا کہ جن کا گھر ہی نہ ہو وہ کیا کریں۔ اپنا گھر تو ہر امیر غریب کا خواب ہوتا ہے۔ انسان ہی کیوں چرند پرند بھی اپنے گھر کے لئے جستجو کرتے ہیں آنکھوں میں اپنے گھر کے خواب سجاتے ہیں مگر انسان کا تو ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی خواب دیکھتا ہے اور اس کو دوسرے ہم نفس خواب دکھاتے بھی ہیں۔ اپنے گھر کا خواب بیچنا تو اج کل ایک منظم کاروبار بن چکا ہے ۔ کچھ تاجر نما لٹیرے زمیں پر خوابوں کی جنت بیچنے کا منظم دھندہ کرتے ہیں۔ خوابوں کی ایسی تجارت کا دھندہ بڑے شہروں میں عروج پر ہے اور سرمایہ دار خوبصورت اینی میشنز بنا کر ہائوسنگ سوسائٹیاں بناتے اور لوگوں کو خواب بیچتے ہیں۔ اپنے گھر سے محرومی غریبوں کو ان سرمایہ داروں کے گرد جمع ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ غریب اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کے بدلے سرمایہ داروں سے اپنے گھر کا خواب خریدتا ہے۔ پھر یہ خواب بقول اصغر مہدی ہوش: ٹوٹ کر روح میں شیشوں کی طرح چھبتے ہیں پھر بھی آدمی خوابوں کا تمنائی ہے اپنے گھر کے خواب کے شیشے آج ہزاروں لاکھوں اپنے گھر کی آرزو رکھنے والوں کے دلوں میں چبھ رہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزیر اعظم نے غریبوں کی آنکھوں میں پچاس لاکھ گھروں کا خواب تو سجا دیا مگر جن ہزار لاکھوں پاکستانیوںکی آنکھوں میں گھر کے خواب شیشے کی کرچیاں بن کر چبھ رہے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ سرمایہ دار غریبوں کو لوٹ رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں لوگ اپنے گھر کے لئے خوشنما ، سرسبز اور کشادہ سوسائٹیوں میں گھر اور پلاٹ کے نام پر لٹ رہے ہیں۔حکومتی ادارے بالخصوص نیب، نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی لوٹ مار پر تو مالکان کی گرفت کرتی ہے مگر اس سے ریلیف کتنوں کو ملتا ہے! آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں! پھر کچھ سوسائٹیاں تو نیب کی دسترس سے بھی باہر ہیں ان میں سے ایک تو خود حکومتی اداروں کی اپنی بنائی ہوئی سوسائٹیاں ہیں جو بیس بیس سال سے مکمل نہیں ہو پائیں اور دوسری کواپریٹو سوسائٹیاں ہیں۔ پہلی قسم کی بد ترین مثال ایل ڈی اے کی ایونیو ون ہے جس کا ایل بلاک 20 سال سے ترقیاتی کاموں کی تکمیل کا منتظر ہے۔ ایل ڈی اے نجی سو سائٹیوں میں ترقیاتی کام مکمل نہ ہونے پر تو ان کے رہن رکھے پلاٹ ضبط کر لیتا ہے مگر اپنی سکیم میں 8 سو سے زائد متاثرین کو 20سال بعد بھی پلٹ الاٹ نہیں کر سکا۔اسی طرح صوبائی دارالحکومت میں ایک سوسائٹی این ایف سی فیز 2 ایسی ہے جس کے انتظامی معاملات خود سوسائٹی ممبران کے ہاتھ میں ہیں مگر گزشتہ 17برس سے اس سوسائٹی میں نہ بجلی آ سکی نہ ہی پانی ۔ اس سوسائٹی میں بنیادی ترقیاتی کام مکمل نہیں ہو سکے۔ سوسائٹی کا عام ممبر 17سال سے اپنی سوسائٹی میں گھر بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے بہت سے تو یہ خواب آنکھوں میں لئے دنیا سے رخصت ہو گئے مگر سوسائٹی کی انتظامیہ اور کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت نے سوسائٹی کو تباہ کر کے رکھ دیا کچھ واقفان حال سوسائٹی کی تباہی کی وجہ اس کے کروڑوں کے وسائل بتاتے ہیںدروغ برگردن راوی سوسائٹی کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے ترقیاتی کام کی مد پڑے ہیں جو سوسائٹی انتظامیہ کے ذاتی استعمال میں ہیں۔ سوسائٹی کے ممبران ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ ایک متاثرہ ممبر نے تو یہ شکایت کی ہے کہ سوسائٹی کی انتظامیہ کی طرف سے اپنے حق کے حصول کے لئے اور انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں کی ممبر شپ ختم کرنے کی دھمکی بھی دی جا رہی ہے اور ذرائع کے مطابق یہ کھیل کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کی آشیر باد میں کھیلا جا رہا ہے۔ سوسائٹی کے ممبران کی بدنصیبی یہ بتائی جاتی ہے کہ انتظامیہ عہدیداروں میں کچھ خود قانون دان ہیں اور ایک منظم انداز میں معاملات کو الجھا کر سوسائٹی کے ترقیاتی کاموں کو التوا کا شکار محض اپنے فائدے کے لئے کر رہے ہیں گو اس گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگ گئی ہے ۔ وہ لوگ جن کے اس سوسائٹی میں خود بھی پلاٹ ہیں وہی سوسائٹی کو تباہ کرنے پر تلے ہوں تو متاثرین انصاف کے لیے کہاں جائیں؟ متاثرین کوآپریٹو ڈیپارٹمنت سے رجوع کرتے ہیں تو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ سوسائٹی کے ممبران ہی نے تو ترقیاتی کام کروانے ہیں وسائل پر اختیار ان کا ہے ڈیپارٹمنٹ کیا کر سکتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ نجی سوسائٹیوں میں ترقیاتی کاموں کو یقینی بنانے اور شہریوں کی جمع پونچی کی حفاظت کی غرض سے ایل ڈی اے ہر سوسائٹی کے کچھ پلاٹ بطور ضمانت رہن رکھ لیتا ہے تاکہ بلڈر کی طرف سے ایل ڈی اے کے قوانیں کی خلاف ورزی کی صورت میں رہن رکھے پلاٹس کو بیچ کر ترقیاتی کام کروائے جا سکیں مگر این ایف سی فیز ٹو میں ایل ڈی اے بھی متاثرین کو ریلیف دینے میں بے بس دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ شاید سوسائٹی ممبران کی طرف سے انتظامیہ کی باگ ڈور قانوں جانے والوں کے ہاتھوں میں سونپنے کا گناہ ہے جو خود ہی ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں متاثرین کی آخری امید حکومت اور عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں جو غریب شہریوں کی آنکھیں خشک ہونے سے پہلے ان کے خواب سچ ثابت کر سکتی ہیں۔ اس معاملے میں وزیراعظم بھی متاثرین کے دکھوں کا مداوہ کرسکتے ہیں تو مہربانی کریں متاثرین کی بے بسی کی حالت ساجد فاروقی کے اس شعر میں معمولی تصرف سے سمجھی جا سکتی ہے: اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر بنائیں گے اک دن