حالیہ پرتشدد مظاہروں اور اسی دوران مولانا سمیع الحق کے ظالمانہ قتل نے حکومتی مشینری کی چولیں ہلادیں ہیں۔ ریاستی اداروں کو شدت سے احساس ہوا کہ پورا پاکستان چند گھنٹوںمیں جام کیاجاسکتاہے۔ اس دوران شرپسند عناصر سیاسی یا مذہبی احتجاج کی آڑ میں سرکاری اور نجی املاک نہ صرف لوٹتے ہیںبلکہ شہریوں کے جان ومال کے لیے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔ حکومت مخالف سیاسی گروہ بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور ملک دشمن عناصر بھی ایسے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے احتجاج اور ہنگاموں نے بھی یہ حقیقت کھولی کہ احتجاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شرپسندعناصر نے ملک اور شہریوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی ۔ دکانیں لوٹیں ۔ گاڑیوں کو آگ لگائی اور لوگوں کو ماراپیٹاگیا۔اگر یہ ہنگامہ چند دن اور جاری رہتا تو ملک میں جنگل کا راج ہوتااوراگلے کئی برسوں تک لوگ پاکستان کا سفرکرنے سے پہلے سو بار سوچتے۔ حکومت کے پاس اس نوع کے ہنگامہ سے نبردآزما ہونے کی کوئی ٹھوس اور قابل عمل حکمت عملی نہیں۔ریاستی اداروں بالخصوص پولیس کی تربیت ہی نہیں کہ وہ شہریوں کے ہجوم پر گولی چلائے بغیر منتشر کرسکے۔ لاہور میں علامہ طاہر القادری کے حامیوں پر پولیس نے گولی چلائی تو درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس اور پنجاب حکومت کو لینے کے دینے پڑھ گئے۔ شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو کسی بھی وقت اس مقدمے میںدھرلیاجائے گا۔ چنانچہ پولیس شہریوں پر تشدد کرنے سے کتراتی ہے۔ اسے عدم تحفظ اور قانونی چارہ جوئی میں حکومت کا ساتھ نہ دینے کا اندیشہ ہوتاہے۔فوج یا نیم عسکری اداروں کو طلب کرنا اور ان سے امن وامان کی بحالی میں مدد لینے میں کوئی عیب نہیں لیکن انہیں سرحدوں کے تحفظ کی تربیت دی جاتی ہے احتجاجی مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی نہیں۔علاوہ ازیں فوج طلب کرنے کے سیاسی اثرات کو کنٹرول کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ ملک کی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کے پاس اچانک اٹھ کھڑے ہونے والے احتجاج سے نبردآزما ہونے کی موثرحکمت عملی ہو۔ کراچی میں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ایم کیوایم اور دیگر نسلی اور لسانی بنیادوں پر منظم گروہوں او رمافیاز کی کمر توڑی گئی۔ ان کی ریاستی اداروں کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کو کند کیا گیا۔ ان کے مسلح گروہوں کو نہ صرف بے دست وپاکیاگیا بلکہ ریاستی اداروں نے ان کے کس بل نکالے۔ چنانچہ اب کراچی میں نیرو چین کی بانسری بجارہاہے۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں ایک امن پسند مکتب فکر کے اندر شدت پسندگروہوں کا زبردست ابھارہوا ۔ وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت اور عشق کو بنیاد بناکر عوام کو متحرک کرتے ہیں۔ میڈیا کی جانب سے کوریج نہ دینے کے باوجود انہیں عوام کی طرف سے زبردست حوصلہ ملا ۔ یہ معاملہ ہی جذبات اور عقیدے کاتھا ۔حکومت کو اس مکتب فکر کے سیاسی ابھار اور بالخصوص اس کے پرتشدد رجحانات کی طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ کوئی گروہ یا جماعت عوامی پذیرائی حاصل کرلیتی ہے تووہ مسلح گروہ پالینے کی جانب راغب ہوجاتی ہے۔ کچھ مافیاز بھی اس کی سرپرستی میں آجاتے ہیں جو جہاں اس جماعت کے لیے کام کرتے ہیں وہاں اس کی سیاسی اور سماجی سرپرستی سے فائدہ اٹھا کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ بریلوی روایتی طور پر ملک کا سب سے پرامن طبقہ ہے۔ افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں بھی انہوں نے حصہ لینے سے گریز کیا۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان کے طول وعرض میں احتجاج کے علاوہ بہت ساری جماعتیں اور شخصیات طالبان کے ہمراہ مزاحمت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر بھی بریلوی مکتب فکر کے اکابرین نے جذبات پر قابورکھا۔حضرت مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالستار خان نیازی کے انتقال کے بعد اس مکتب فکر کے اندر جذباتی اور سطحی فکر رکھنے والوں کا غلبہ ہوتاجارہاہے جو شدت پسندی کی راہ پر نہ صرف خود گامزن ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہ راستہ اختیار کرنے پر قائل کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ابھی سے ایسے عناصر کو سیاسی اور سماجی طور پر غیر موثر بنانے کے ٹھوس اقدامات کرے۔ایسی جماعتوں اور شخصیات کے راستے سے کانٹے چنے جائیں جو پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔مولانا سمیع الحق جنہیں ابوالطالبان کہاجاتا تھاان کے جنازے کا اجتماع نہ صرف پرامن رہا۔ پولیس اور ریاستی اداروں کو موقع دیاگیا کہ وہ قانون کے مطابق مولانا کے قاتلوں کا سراغ لگائیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔ حالیہ احتجاج کے دوران اگر تحریک لبیک کی قیادت بھی بالغ نظری کا ثبوت دیتی تو احتجاج بھی ہوجاتا اور لوگوں کا جان ومال بھی محفوظ رہتا۔ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کی خاطر ٹھوس او رجامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔ جہاں پولیس کی تربیت کی ضرورت ہے وہاں اسے قانونی تحفظ فراہم کیاجانا بھی ضروری ہے۔ پولیس ضروری کارروائی کے بعد عدالتوں کے چکر کاٹ سکتی ہے اور نہ میڈیا ٹرائیل کا سامنا کرسکتی ہے۔علاوہ ازیں خفیہ اداروں کو زیادہ سائنسی انداز میں منظم کیا جائے۔انگریز کے زمانے میں ہر تھانہ ایسے عناصر کی تفصیلات جمع کرتاتھا جو نقص امن کا باعث بن سکتے تھے۔ سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیور داخلی سلامتی کے معاملات میں اہم کردارادا کرتاتھا لیکن رفتہ رفتہ ان اداروں کو تباہ کیاگیا۔بتایاجاتاہے کہ نائن الیون کے بعد امریکیوں او رمغربی ممالک نے آئی بی کو جاسوسی کے اسٹیٹ آ ف کی آرٹ آلات فراہم کیے ہیں۔ باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی بھرتی سے اس ادارے کی کارکردگی اور استعداد میں نمایاں اضافہ ہوچکاہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ آئی بی کو زیادہ بااختیار بنانے سے بھی داخلی سطح پر امن وامان کے مسائل سے نمٹا جاسکتاہے۔ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی شہریوں کی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ہمارے امام مسجد نے نمازیوں پر زور دے کر کہا کہ احتجاج ان کا آئینی حق ہے لیکن احتجاج کے دوران کسی کی جان اور مال کو کوئی گزند نہ پہنچے۔بعدازاں دوستوں سے پوچھا کہ آپ کی مسجد کے امام نے کیا فرمایا تو اکثر کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو خوب بھڑکایا۔ریاستی اداروں کو علماء اور دیگر سماجی اداروں کے ساتھ گہرا ربط وضبط رکھنا ہوگا تاکہ وہ ماحول کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد کرسکیں ناکہ جلتی پر تیل چھڑکیں۔علاوہ ازیں بلوائیوں کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے تاکہ لوگوں پر قانون کی دھاک بیٹھ سکے اور وہ شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔