انسانیت ،امن اور سلامتی کے دشمنوں نے ایک مرتبہ پھرکوئٹہ کو خون میں نہلادیا،اناللہ وانا الیہ راجعون۔امن وعافیت کے حوالے سے اس قابل رحم شہرمیںایک بار پھر بے گناہ پختونوں اور بلوچوں کی دو درجن سے زیادہ لاشیں گرادی گئیں اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ماضی کی طرح اس دھماکے کے نتیجے میں اس مرتبہ بھی درجنوں گھرانے اجڑ گئے، بے شماربچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں ۔حسب معمول اس مرتبہ پھرملک کے وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلی اور گورنرزصاحباں کی طرف سے ان کے ترجمانوں نے مذمتی بیانات جاری کردیئے ۔ کسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’’ دہشتگرد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر دم لیں گے‘‘۔کسی نے پھر سے عہد کرنے کی ٹھان لی ہے کہ’’ دہشتگرد انسانیت کے دشمن ہیں اور ملک وقوم کو مزید دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے‘‘۔وزیر اعلی جام کمال نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں ۔ غالب امکان ہے کہ عنقریب یہ اعلان بھی سنایاجائے گاکہ شہدا کے بچوں کو نوکریاںاورشہداء کے لواحقین کو فی شہید کے بدلے دس لاکھ روپے کا معاوضہ بھی دیا جائے گا۔اسی طرح پولیس ترجمان نے بھی معمول کی طرح اس حملے کے ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ حملے میں دس کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیاگیا،حملہ آورایک خودکش بمبار تھا، پریس کلب داخل ہونے کی کوشش کی ، روکنے پر پولیس اہلکاروں کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔اگر معاملے کو اعلیٰ حکام نے زیادہ سنجیدہ لینے کی زحمت کی تو آٹھ اگست 2016ء کے سانحہ کی طرز پرایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی جائے گی البتہ یہ پھر الگ بات ہے کہ اس کی رپورٹ میں بھی کیڑے نکالے جائیں گے۔معمول کی ایک اور بات یاد آگئی ،وہ یہ کہ ہمارے کرم فرماووں کواس دھماکے کے پیچھے بہت جلد انڈیا کے جاسوسی ادارے را یا افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا ہاتھ بھی نظرآجائے گا، وغیرہ وغیرہ- اس حملے کے بعدپھر کیاہوگا؟ پھر وہی ہوگا جو آٹھ اگست کے سانحے کے ہفتہ دس دن بعد ہوا تھا۔ شہر میں معمولات زندگی پھر سے بحال ہونا شروع ہونگے اور خاکم بدہن لوگ ایک اور سانحے تک اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں ۔چند ہفتے پہلے کوئٹہ ہی کی ایک مسجد کے باہر ایک دھماکہ ہواتھا جس کے نتیجے میں تیرہ افراد شہید ہوگئے تھے ۔یہ ہے دہشتگردی اورانتہا پسندی کے خلاف بیانیہ اور لائحہ عمل جس کے اوپر ہماری سرکار بیس سال سے عمل پیرا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ دہشتگرد اور انتہا پسندکیوں دہشتگردی سے بازنہیں آرہے ہیں بلکہ بنیادی سوال اب قوم یہ پوچھ رہی ہے کہ بیس سال سے اس عفریت کوللکارنے والی سرکار آخر ناکام اور بے بس کیوں دکھائی دیتی ہے ؟درجن بھر آپریشنز کرنے کے باوجود بھی مٹھی بھر دہشتگردوں کا صفایا کیوں نہیں ہوپارہا؟ پشاور اے پی ایس پر حملے کے بعدبیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا ۔اس پلان پر اگر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہوا ہے تو انسانیت کے دشمن کہاں سے برآمد ہوتے ہیں ؟ یہ سب وہ بنیادی سوالات ہیں جو اس وقت ہر ذی العقل بندے کے ذہن میں گردش کررہے ہیں ۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے نہ تھمنے والے حملوں کے خلاف اگر کوئی احتجاجی آواز بلندکرتا ہے اور ذمہ دار اداروں کی تغافل پر نکتہ چینی کرنے کی ہمت کرتا ہے تو وہ ملک کا غدار اور این ڈی ایس اور را کا یار ٹھہرجاتاہے ۔ ہماری اکثر سیاسی جماعتوں کی قیادت صرف اس وجہ سے لب بستہ بنی بیٹھی ہے کہ کہیں اسے بھی غداروں اور خائنوں کی فہرست میں شمار نہ کردیاجائے۔میڈیا میں جو صحافی حضرات اس اندھیر نگری کے اوپر سوالات کھڑا کرنے کی جسارت کرتے ہیں ، ان کا حشر بھی قوم دیکھ چکی ہے ۔اس حوالے سے ریاستی غفلت یا خیانت کی حالیہ اور روشن مثال ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا فرار ہے ۔ احسان اللہ احسان مذکورہ خونخوار دہشتگرد تنظیم کا وہ ترجمان تھا جو سینکڑوں انسان دشمن کارروائیوں کا بھیانک کریڈٹ لیتے رہے تھے ۔ تین سال قبل جب یہ انتہائی مطلوب دہشتگرد ریاست کے ہاتھ لگا تھاتو چند ہفتے پہلے وہ فرار ہونے میں کامیاب کیسے ہوگئے ؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو پچھلے ہفتوں سے نہ صرف سوشل میڈیا پر پوچھا جارہاہے بلکہ قومی اسمبلی کے فلور پر بھی گزشتہ دنوں میں پوچھا گیا۔طویل خاموشی اور لیت ولعل کرنے کے بعد بالآخر وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے پیر کو میڈیا کے سامنے احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ریاست باخبر ہے اور بہت جلد آپ لوگوں کو خوش خبری ملے گی ‘‘۔ معلوم نہیں کہ اعجاز شاہ صاحب کس بات کی خوش خبری سنائیں گے لیکن سردست ایسا لگ رہاہے کہ ریاستی تغافل اور تجاہل کا فائدہ اٹھا تے ہوئے دہشتگرد ایک مرتبہ پھر منظم ہونے جارہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ غیب سے ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔