سیاست میں وعدوں اور معاہدوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، موجودہ پاکستانی سیاست میں جب کوئی پارٹی واضح اکثریت سے محروم رہتی ہے تو اسے حکومت سازی کے لئے بھانت بھانت کی سیاسی پارٹیوں کی جائزناجائز خوشامدیں کرنا پڑتی ہیں اور ان کی بیساکھیوں کا سہاراحاصل کرنا پڑتا ہے ۔ حکومت سازی کے لئے ان چھوٹے چھوٹے سیاسی دھڑوں سے بڑے بڑے وعدے کرلئے جاتے ہیں اور حکومت بننے کے بعد ان وعدوں کو یکسر فراموش کردیا جاتا ہے جس سے اتحادیوں کی بغاوتوں کے خدشات ہر وقت سر پر منڈلاتے رہتے ہیں اور حکومتیں عدم استحکام سے دوچار رہتی ہیں۔ اتحادی حکومتوں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اتحادی رفیقوں کے شکوے شکایتوں کے سبب قومی سیاست میں آئے روز بھونچال رہتا ہے اور ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ حکومت اب گئی کہ کب گئی۔2018ء کے انتخابات میں جب تحریک انصاف حکومت سازی کے لئے مطلوبہ عددی برتری حاصل نہ کرسکی تو عمران خان کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کے لئے پنجاب سے قاف لیگ ، بلوچستان سے بی این پی مینگل اور سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ اور جی ڈی اے (گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس)سے الگ الگ نوعیت کے سیاسی معاہدے کرنے پڑے۔ ان جماعتوں کے پاس چند نشستیں تھیں لیکن ان کی حکومت سازی میں اہمیت سے انکار ممکن نہیں تھا۔ جب یہ وعدے اور معاہدے کئے جارہے تھے تو ان کے بارے میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ حکومتی اتحاد کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی اور جلد ہی اتحادی باہم دست بہ گریباں ہوں گے اور رواروی میں کئے گئے یہ بڑے بڑے وعدے کبھی ایفانہیں ہو سکیں گے۔اس حکومت کی مختصر تاریخ نے یہی ثابت کیا ہے کہ پنجاب کے اتحادیوںکو چھوڑ کربلوچستان اور سندھ سے حکومت کوکاندھا دینے والوں کی اس سوا سال میں ایک بھی نہیں سنی گئی ۔ وہ حکومت سے نالاں ہیں اور باامر مجبوری وفاقی حکومت کاساتھ دے رہے ہیں۔ عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کرنے کے لئے یہ سارے کٹھن معاہدے کچھ پراسرار شخصیات اورتحریک انصاف کے عدالت سے نااہل جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی ثالثی میں پایہ تکمیل تک پہنچے اور ارکان اسمبلی کو لادلاد کر محفوظ مقام تک پہنچانے کا سارا نیک کام بھی جہانگیرترین کے ذاتی طیارے کے ذریعے ہی ہوا۔ سندھ میں جی ڈی اے نے ایم کیوایم کے برعکس کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا تھا لیکن پیر صاحب پگاڑو کی غیر مشروط حمایت کے باوجود ان کے وہ مطالبے بھی خاطر میں نہیں لائے گئے جو زبانی کلامی عمران خان اور ان کے سودا کا ر افراد کے ذریعے فیصلہ سازوں تک پہنچائے گئے تھے۔ حکومت کے وعدوں سے مفر کی روش کی وجہ سے ہی تحریک انصاف کی حکومت سیاسی بلیک میلنگ کی سولی پر لٹکی ہوئی ہے اور چندخیراتی ووٹوں کی دست نگر ہے۔ پنجاب ، بلوچستان اور سندھ میں عمران خان کا ایک بھی اتحادی حکومتی رویوں اور وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے خوش اور مطمئن نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بلوچستان میں راتوں رات کھڑی کی جانے ولی پہلی عوامی پارٹی ’’باپ‘‘ بھی وفاقی حکومت کی کارکردگی اور بلوچستان کے ساتھ وفاق کے تعلق خاطر کے ضمن میں کسی قسم کی خوش فہمیوں میں نہیں ہے۔ مرکزاور صوبوں میںحکومتیں بنیں توپنجاب میں قاف لیگ نے پھرتیاں دکھائیں اور من چاہے عہدے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی، اس کے باوجود اب بھی وہ پنجاب میںاپنی ضرورتوں کا کشکول حکمرانوں کے آگے پھیلا ئے ہوئے ہے اور وفاقی حکومت کو مسلسل سیاسی دبائومیں رکھے ہوئے ہے۔ عمران خان کوکرسی پربٹھانے کے لئے سب سے مشکل معاہدہ بی این پی مینگل اور عمران خان حکومت کے درمیان طے پایاتھا۔سردار اختر مینگل کے 6 مطالبات بلوچستان میں قیام امن کے لئے سرگرم عمل قوتوں کے لئے ناقابل قبول تھے لیکن عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے انہیںیہ کڑوے گھونٹ پینے ہی پڑے۔ سردار اختر مینگل کے 6 مطالبات میں بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی بازیابی، افغان مہاجرین کی فوری واپسی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کا 6 فیصد کوٹہ، بلوچستان میں ڈیموں کی تعمیر اور گوادر میں بلوچوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں اوروسائل فراہم کرنا شامل ہے۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ سردار اختر مینگل کے 6 مطالبات تسلیم کرنے میں عمران خان اور جہانگیر ترین کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ وفاق سے برہم بلوچوں کی دکھتی رگ ہے،مسنگ پرسنزکاذکر آتا ہے تو سردار اختر مینگل کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور وہ ان افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی اسد مینگل کا ذکر اکثر کرتے ہیں جو بقول ان کے چالیس برس پہلے پراسرار طریقے سے غائب ہو گئے تھے اور اب ا نہیں یقین ہوچلا ہے کہ وہ زندہ نہیں رہاہوگا۔سرداراختر مینگل کے لہجے میں بلوچستان میں پناہ گزین افغان مہاجرین کا ذکر کرتے ہوئے بھی ترشی آجاتی ہے، وہ اکثر کہتے ہیں کہ بلوچستان کو عالمی یتیم خانہ نہ بنایا جائے اور ان مہمانوں کو اپنے وطن واپس بھیجا جائے ۔ اپنے 6 مطالبات پر سردار اختر مینگل کی عمران حکومت سے اکثر مڈ بھیڑ رہتی ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں ان کی تقریروں میں بھی ان کے6 مطالبات کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے، وہ نیم بروں نیم دروں حکومت کے ساتھ بھی ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔انہیں بھی پتہ تھا کا ان کے یہ 6مطالبات عمران خان اور ان کے ثالث کرداروں کے لئے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوں گے لیکن سردار اختر مینگل کی یہ بڑی سیاسی کامیابی ہے کہ وہ اتنے اہم مطالبات وفاق سے تحریری طورپرمنوانے میں کامیاب رہے ، جن کی بنیاد پر ماضی قریب میں کوئی بلوچ قوم پرست رہنمائوں سے بات تک کرنے کاروادار نہیںتھا۔ ابھی تک تو بلوچستان کے اتحادیوں کی ناراضی کا سلسلہ تھا،اب تو عمران حکومت کو اقتدار میں لانے کیلئے غیر مشروط طور پر حمایت کرنیوالے پیرصاحب پگاڑو بھی وفاقی حکومت اور عمران خان سے سخت مایوس ہیں۔پیر صاحب پگاڑو اپنے سیاسی تدبر کی وجہ سے کھل کر حکومت اور وزیراعظم پر تنقید نہیں کرتے لیکن وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی اور عمران خان کی ٹیم کی نااہلی سے برانگیختہ ہیں۔ پیرصاحب پگاڑو جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک بڑی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے پیرصاحب پگارو کو ایک بڑی سیاسی جنگ میں دھکیل کر ان سے نگاہیں پھیر لی ہیں۔عمران خان سندھ میں پیپلزپارٹی کی کارکردگی سے مایوس قوتوں کے ساتھ وفاقی حکومت کی طرف سے دست تعاون دراز کر کے اس سیاسی لڑائی کو عوام کے حق میں سازگارکر سکتے تھے اور اسی طرح کچھ مثبت اقدامات سے بلوچستان اوراس کے عوام کی بھی اشک شوئی کی جاسکتی تھی لیکن عمران حکومت نے اپنی نااہلی سے یہ موقع گنوا دیا ہے اور ملک کے دواہم رہنمائوں پیر صاحب پگاڑو اور سرداراختر مینگل کو خود سے بہت دور کرلیا ہے۔ جی ڈی اے اور بی این پی مینگل کی وفاقی حکومت سے سیاسی دوری کسی وقت بھی غیرمعمولی اور تاریخی جھمیلوں میں الجھی عمران حکومت کے مستقبل کیلئے سوہان روح ثابت ہو سکتی ہے۔