ایک خبر حکومت پنجاب نے پرائمری سکولوں سے انگریزی کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرائمری سکولوں مین نئی کتابیں جلد پہنچا دی جائیں ۔انگریزی کا خاتمہ اردو نفاذ بظاہر یہ خوش کن نعرہ ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ کیا اس سے طالب علموں کو فائدہ ہو گا ؟ اگر حقیقت پسند انہ جائزہ لیا جائے تو اس کا جواب نفی میں آتا ہے ۔اگر پاکستان کی 70سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری سکولوں میں انگریزی کی جگہ اردو رائج کرنے سے غریبوں کی اولاد کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، امراء کی اولاد یں پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھیں وہ ڈی سی ، کمشنر ، ایس پی اور ڈی پی او ٹھہرے ، فوج میں اعلیٰ عہدیدار بنے ،ایڈووکیٹ جنرل اور جج بنے اور فارن سروسز میں چلے گئے جبکہ غریب بچہ نویں اور دسویں جماعت میں انگریزی کی سپلیوں میں اپنا مستقبل تباہ کر کے بیٹھ گیا ۔ وجہ یہ نہ تھی کہ غریب کا بچہ نالائق تھا وجہ یہ تھی بچے نے مڈل تک انگریزی کا منہ نہ دیکھا جونہی اس نے آٹھویں پاس کی آگے اس نے ان سائنسی مضامین کا انتخاب کرنا تھا کہ مضامین اردو نہیں انگریزی میں تھے یہاں یہ غریب کے بچے کی بس ہوگئی ۔ پوری دنیا کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کو ابتدائی تعلیم اس کی ماں بولی میں دی جائے ، اس کے بعد انگریزی بھی ساتھ ساتھ پڑھائی جائے کہ فی الحال انگریزی کے بغیر کوئی چارہ نہیں ، ماں بولی میں ابتدائی تعلیم کے دور رس نتائج برآمد ہونگے ۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق سے زیادہ اردو بارے جس شخص کی خدمات ہیں اس کا نام سر سید احمد خان ہے ، 1857ء سے لیکر 1888ء تک سر سید احمد خان نے اردو کیلئے دن رات ایک کیا ، سرسید احمد خان اردو کے معاملے میں اتنے جذباتی تھے کہ اگر کوئی اردو کے خلاف بات کرتا اس کو مارنے کیلئے ڈنڈا لیکر دوڑ پڑتے۔ مولوی عبد الحق سر سید کے مقلد تھے قائد نہ تھے ،اردو بارے قائدانہ کردار ادا کرنے والے سر سید احمد خان کو جلد معلوم ہو گیا کہ اردو سے ہندوستان کے اردو بولنے والوں کو نقصان ہو رہا ہے ، کوشش کے باوجود اردو جدید سائنسی تعلیم کی ضروریات پوری نہیں کر پار رہی اور ہندو انگریزی پڑھ کر آگے بڑھ رہا ہے ، پھر اردو کے عظیم قائد سر سید احمد خان نے خود ہی اردو چھوڑ کر انگریزی پڑھنے کی تحریک چلائی ، سر سید احمد خان کا فیصلہ اردو دشمنی نہ تھا بلکہ حقائق پر مبنی تھا، لیکن پاکستان میں بابائے اردو سر سید احمد خان کے فلسفے کو پیچھے پھینک کر اردو کو لازمی قرار دیدیا گیا ، اس کے نتیجے میں اُمراء کے افراد نے اعلیٰ پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں اپنی اولادوں کو انگریزی پڑھائی اور وہ ایک بار پھر انگریزی میں لیے جانے والے سی ایس ایس ، پی سی ایس ، فوج میں کمیشنڈ افسر ، ڈاکٹر اور انجینئر بن گئے اور غریب کی اولاد کو اردو کی سزا ملی اور وہ غلام ابن غلام ابن غلام ٹھہرے ، کراچی میں مہاجر وں کی بڑی لیڈر شپ کی اولاد آج بھی ’’ اردو میڈیم ‘‘ میں داخلہ لینا جرم سمجھتی ہے ، وجہ یہ ہے کہ انہیں علم ہے کہ اردو کے دامن میں اتنی وسعت ہی نہیں کہ اس میں سائنس کے مضامین سما سکیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستانی زبانوں کو پھلنے پھولنے کا موقعہ دیا جائے اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہونا چاہئے اور انہیں پہلی سے ایم اے تک نصاب میں پڑھانا چاہئے ، یہی بات 21 فروری کا پیغام ہے ۔ بحیثیت زبان کوئی بھی زبان بُری نہیں ، تمام زبانیں قابل احترام ہیں ، اردو سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ، لیکن یہی احترام اس سر زمین کی ان زبانوں کو بھی حاصل ہونا چاہئے جو اس دھرتی کی اصل وارث ہیں اور ہزار ہا سالوں سے انسانوں کے درمیان ابلاغ کے ساتھ ، محبت و اخوت کے رنگ بکھیر رہی ہیں ، اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ پاکستان کے کسی بھی علاقے سے اردو کا تعلق نہ ہے یہ ہندوستان سے آئی ہوئی زبان ہے ، یہ زبان لکھنؤ رام پور اور حیدر آباد دکن وغیرہ میں مختلف زبانوں کے الفاظ کے ملاپ سے وجود میں آئی ، پاکستان کے کسی بھی علاقے کی زبان کلچر اور تہذیب سے اس کا تعلق نہیں ہے ، یہ بات درست ہے کہ بھارت سے آنیوالے چند ایک فیصد لوگوں کی یہ ماں بولی ہے ، اسے اپنی آبادی کے مطابق اداروں سے حصہ پانے کا حق حاصل ہے لیکن یہ امرافسوسناک ہے کہ پاکستان میں سرکاری رتبہ ملنے کے بعد اس زبان نے اردو بولنے والی مقتدر اشرافیہ کو خود فریبی کی حد تک احساس برتری میں مبتلا کر دیا ہے ، اور مقامی کلچر سے مفائرت پیدا کر دی ۔ زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے ، دھرتی کی زبان ہی زمین زادوں کی ماں ہوتی ہے ، اور وہی زبان اس خطے کی قومی زبان ہوتی ہے ، گملے میں اگائی گئی کوئی بھی زبان قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی ، اردو کی ترقی پر اعتراض نہیں لیکن امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے ، زبانیں معصوم ہوتی ہیں ، انسان اپنے ذہنی فتور سے انہیں نفرت کا ہتھیار نہ بنائے ، اس وقت میرے سامنے اردو زبان کے سرکاری ادارے مقتدرہ کی کتاب ’’ لسانی مذاکرے ‘‘ ہے کتاب کے صفحہ 171پر درج ہے کہ بابائے اردو مولوی عبد الحق کا فرمان ہے کہ ’’ ہندوستان میں اردو ہی مسلمانوں کی زبان ہے باقی سب کافروں کی زبانیں ہیں ‘‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کلمہ کہنے والے کو اردو کا بابا کس نے بنایا ؟ زبانیں کافر یا مسلم نہیں سیکولر ہوتی ہیں ،آج پوری دنیا میں زبانوں کے بارے میں بحرانی کیفیت ہے۔ بات رسم الخط کی نہیں خود زبانیں بھی مر رہی ہیں اس وقت دنیا کی چھوٹی بڑی چھ ہزار زبانوں کا قتل عام جاری ہے ، بہت سی مر چکی ہیں ، اور بہت سی مر رہی ہیں ، ان زبانوں کو زندہ رہنا چاہئے ، ہم تو کہتے ہیں کہ چیونٹی کے ساتھ اس کی آواز بھی زندہ رہے ، انسانوںکی زبان تو پوری تہذیب کا نام ہوتی ہے، اس کا زندہ رہنا تہذیب کا زندہ رہنا ہے۔21فروری کا یہی پیغام ہے کہ زبانوں کو مارنے نہیں بچانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت بلاتاخیر پورے ملک میں ابتدائی تعلیم ماں بولی میں رائج کرے۔ذرائع ابلاغ پر 60فیصد وقت ماں بولیوں کو دیا جائے ۔ پیمرا کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ پرائیویٹ ریڈیو اور ٹی وی چینل کو لائسنس جاری کرتے وقت اس بات کا پابند کرے کہ وہ پروگراموں کا بیشتر حصہ ماں بولیوں میں نشر کریں گے۔ سرکاری طور پر ماں بولیوں کو علاقائی زبانوں کے بجائے قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ ماں بولیوں کے فروغ کیلئے اگر حکومت اقدامات نہیں کرتی تو پھر کوئی ضرورت نہیں کہ تقریبات منعقد کی جائیں اور دنیا کے سامنے کہا جائے کہ ہم ماں بولیوں سے محبت کرتے ہیں۔آج فیصلے کا وقت ہے کہ ماں بولیوں کی ترقی کے لئے اقدامات یا صرف باتیں ؟۔