پران نول میرا ایک دوست جس کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ لاہور تھا۔ پہلا اور آخری عشق تھا تو شہر لاہور تھا جو کہا کرتا تھا کہ میں لاہور کا ہوں اور لاہور مجھ میں آباد ہے‘ پران وہاں ’’دیار غیر‘‘ میں مر گیا تو گویا اس کے ساتھ ایک لاہور بھی مرگیا۔ ہندوستان میں لاہور کا پرچم بلند کرنے والے اور پاکستان کے لیے ہمیشہ کلمہ خیر کہنے والے مرتے جاتے ہیں۔ پہلے بابا خشونت سنگھ رخصت ہوا اور وصیت کر گیا کہ میری راکھ میرے آبائی گائوں ہڈیالی میں لے جا کر دفن کی جائے کہ اگرچہ ہندوستان میرا ملک ہے لیکن میرا وطن پاکستان ہے۔ ہڈیالی کے اس ہائی سکول کی دیوار میں خشونت سنگھ کی راکھ دفن کردی گئی جہاں وہ کبھی پڑھتا تھا۔ چند روز پیشتر کلدیپ نیر مر گیا اسے بھی اپنے اس وطن سے اتنی محبت تھی کہ اس نے بھی یہی وصیت کی کہ مجھے جلادو لیکن میری راکھ کو گنگا میں نہ بہانا‘ اسے لاہور لے جانا اور دریائے راوی کے پانیوں کے سپرد کردینا۔ پچھلے ہفتے اس کی پوتی اپنے دادا کی خواہش کے مطابق ایک کچے کوزے میں اس کی راکھ لے کر آئی اور راوی کے پانیوں میں بہادی۔ لاہور پریس کلب کی جانب سے کلدیپ نیر کی یاد میں سوگواری کی ایک محفل ہوئی جس کی مہمان خصوصی اس کی پوتی تھی۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور پریس کلب نے خصوصی طور پر کلدیپ نیر کو کیوں یاد کیا۔ کلدیپ نیر لاہور پریس کلب کے ممبر تھے اور انہوں نے دہلی پریس کلب کی ممبر شپ حاصل کرنے سے انکار کردیا تھا اور اب پران نول بھی رخصت ہو گیا۔ یہ نایاب اور پاکستان کے پیارے لوگ نہ صرف لاہور کو یاد کرتے تھے بلکہ ہر سٹیج پر پاکستان کے حق میں بے دریغ بولتے تھے۔ ویسے میں ایک عجیب الجھن میں ہوں کہ پاکستان میں ہمارے بہت سے دوست اگرچہ ہندوستان میں چھوڑے ہوئے اپنے آبائی شہروں اور قصبوں کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ہندوستان کے بارے میں کوئی کلمہ خیر نہ کہا۔ کیا وہ ہم سے زیادہ فراخ دل تھے یا ہم جرأت نہ کرتے تھے۔ پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ امن کی آشا کے مرتکب نہ ہونا چاہتے تھے۔ اب ادھر صرف گلزار باقی ہیں‘ جانے کب اور کس روز یہ گلزار بھی خزاں آلود ہو جائے گا۔ جن دنوں سرحدوں پر کچھ کشیدگی تھی تو ایک محفل میں گلزار کی صدارت تھی‘ ایک مقرر نے پاکستان کے خلاف زہر اگلا تو گلزار اٹھ کر چلے گئے کہ وہ اپنی جنم بھومی کے خلاف زہر افشانی برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر کوئی پاکستانی محفل میں ہندوستان کے خلاف بات ہو تو کیا ایک پاکستانی ادیب احتجاج کے طور پر واک آئوٹ کرسکتا ہے؟ گلزار کی بیٹی بوسکی یعنی میگھنا ان سے پوچھتی ہے‘ بابا کیا آپ کا وطن دینہ اتنا ہی خوبصورت تھا جتنا آپ بیان کرتے ہیں تو گلزار کہنے لگے‘ مجھے تو وہ سارے جہاں سے اچھا لگتا ہے‘ ان کے تقسیم کے تناظر میں مختصر ناول کا اردو ترجمہ ’’دو لوگ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو مجھے فون کیا اور کہنے لگے ’’آپ بے شک انکار کردیں لیکن میری شدید خواہش ہے کہ اس کا دیباچہ آپ لکھیں‘‘ کون کافر انکار کرسکتا تھا۔ دلی کی سارک ادیبوں کی کانفرنس کے دوران ہم لوگ انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے پرفضا اور ہرے بھرے ماحول میں ٹھہرے ہوئے تھے ایک روز ایک صاحب نہایت خوش پوش اور خوشگوار مجھے تلاش کرتے میرے کمرے تک آ گئے۔ تارڑ صاحب مجھے آج ہی اطلاع ملی کہ آپ بھی آئے ہوئے ہیں۔ میں آپ کو خوب جانتا ہوں اور میرا نام پران نول ہے۔ تو میں نے کہا پران صاحب آپ مجھے کیا جانیں گے جتنا کہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ آپ کی کتاب ’’لاہور‘ ایک جذباتی سفر‘‘ مجھے تقریباً ازبر ہے۔ کہئے تو اس کے آغاز کی چند سطریں پیش کردوں؟ پران نے دیباچے میں تحریر کیا کہ لاہور کے بارے میں اس کتاب نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنویا کے ہوسٹل اسٹوریا کے ویران ڈائننگ روم میں جنم لیا۔ میں ناشتہ کر رہا تھا جب کسی نے مجھے پنجابی میں پکارا ’’موتیاں والیو‘ ہندوستان دے او کے پاکستان دے‘‘ تو میں نے مسکرا کر کہا ’’بادشاہو میں لاہور دا ہاں‘‘ وہ شخص ایک پاکستانی تھا اور پکا لاہوریا تھا۔ ہمارے درمیان لاہور کی پرانی یادوں کا ایک سیلاب آ گیا۔ تب میں نے سوچا کہ ان یادوں کو قلمبند کردوں۔ پران بہت متاثر ہوئے‘ کہنے لگے‘ دراصل میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ یہاں دلی میں ہم پرانے لاہوریوں نے ایک ’’لاہور کلب‘‘ قائم کر رکھا ہے‘ میری خواہش ہے کہ ہفتے کے روز آپ ہمارے خصوصی مہمان بن جائیں اور ہاں اس کلب میں صرف چند بچے کھچے لاہوری شریک ہوتے ہیں اور لاہور کی باتیں کرتے ہیں۔ میں ’’لاہور کلب‘‘ کے اس اجلاس میں شامل نہ ہو سکا کہ مجھے اگلے روز ہی پاکستان لوٹ جانا تھا۔ مجھے بہت قلق ہوا کہ پران اس مختصر ملاقات کے دوران اتنی حسرت سے دیکھ رہا تھا جیسے میں نہیں اس کے سامنے لاہور کے بام و در ہیں جن سے بچھڑ جانے کی اداسی ابھی تک اس کی آنکھوں میں ہے۔ پران نول 1922ء میں لاہور میں نسبت روڈ کے ایک گھر میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم رہا اور پھر لاہور پاکستان ہوگیا اور وہ مجبوراً ہندوستان اپنے ماں باپ اور خاندان کے ساتھ منتقل ہوگیا۔ انڈین فارن سروس میں شامل ہو کر د نیا کے مختلف ملکوں میں سفارتی فرائض انجام دیتا رہا اور ریٹائر ہونے کے بعد صحافت اور لاہور کے عشق کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ اگرچہ اس نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں جن میں ’’لو سٹوریز فرام راج‘ صاحب اور میم صاحب‘ ناچ گرلز آف راج‘ سہگل‘ ایک لافانی گلوکار‘‘ وغیرہ شامل تھیں لیکن پاکستان میں وہ ’’لاہور‘ ایک جذباتی سفر‘‘ کے حوالے سے پہچانا گیا۔ اگرچہ یہ پوری کتاب ایسی ہے کہ اسے نقل کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن۔ ’’یہ جو لاہور سے محبت ہے۔ (دراصل) کسی اور سے محبت ہے۔ اس کتاب کے ہر صفحے پر کسی اور سے نہیں صرف لاہور سے محبت ہے۔‘‘ جو مزا چھجو دے چبارے۔ او بلخ نہ بخارے اس کتاب میں ڈاکٹر پریم کرپال کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفوڈ میں نہیں لاہور میں پڑھانے کو ترجیح دی اور پریم کرپال اکثر یہ منقولہ دوہرایا کرتے تھے کہ : ’’کھائیے کنک چاہے بھگی ہووے رہیے لاہور بھاویں جھگی ہووے یعنی کھائیے گندم چاہے وہ کیڑوں کی کھائی ہوئی ہو اور رہیے لاہور میں چاہے ایک جھگی میں رہیے۔ اور ملٹن اپنے شاہکار ’’پیراڈائز لوسٹ‘‘ میں جب دنیا کے حسین ترین شہروں کا تذکرہ کرتا ہے تو تیمور کے ثمرقند کے ساتھ مغل شہروں آگرہ اور لاہور کی بھی توصیف کرتا ہے۔ ’’میرا سوہنا شہر لاہور دلی سے کچھ زیادہ دور نہیں یکدم میرے لیے ایک شہر ممنوعہ ہوگیا نئی ریاستیں اور نفرتیں اور محبتیں حائل ہو گئیں گھر گمشدہ اور دل گھائل (پریم کرپال) ’’بود آباد دائم شہر لاہور‘‘ (داراشکوہ) یہ عجب شہر ہے۔ بابر اور شیر شاہ سوری نے کہا کہ لاہور کو تباہ کرنا میری خواہش ہے۔ محمود غزنوی نے لاہوریوں کو تہہ تیغ کیا اور پورے شہر کو ہل پھروا کر ملیا میٹ کردیا۔ البتہ یہ اس کا غلام ایاز تھا جو لاہور کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے اسے پھر سے تعمیر کیا۔ صرف راجپوت راجہ جے پال تھا جس نے لاہور کا دفاع کیا اور جب محمود کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا تو بھاٹی دروازے کے باہر راجائوں کا شاہانہ لباس زیب تن کئے باہر آیا اور ’’جوہر‘‘ کی رسم کے مطابق ایک پیپل تلے اپنے آپ کو آگ لگالی۔ یہ پیپل یا اسکی نسل کے کچھ پیپل اب بھی اس دروازے کے باہر موجود ہیں اور ان کے سائے میں ایک اصطبل ہے۔ پران نول سے دوسری ملاقات گورنمنٹ کالج کے سبزہ زار میں ہوئی جہاں ’’لاہور‘ ایک جذباتی سفر‘‘ کے نئے ایڈیشن کی رونمائی ہورہی تھی کہ اس میں پران نے اپنے گورنمنٹ کالج کے ایام کے بارے میں ایک خصوصی باب تحریر کیا تھا۔ پران نے گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ سے کہا تھا کہ اس رونمائی کے لیے آپ نے ایک تو اعتزاز احسن کو اور دوسرے تارڑ کو مدعو کرنا ہے۔ سٹیج پر پران نول کے پہلو میں اس کا بڑا بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد بھی لاہور سے محبت کے چراغ جلتے رہیں۔ میں نے راج اپنے بیٹے کو نسبت روڈ پر واقع اپنا آبائی گھر دکھایا ہے کہ بیٹے اپنے اس گھر کو‘ اس لاہور کوفراموش نہ کرنا کہ یہ تمہارا وطن ہے۔ میں نے مر جانا ہے تو میرے بعد بھی تم نے میری محبت کے کسی چراغ کو بجھنے نہیں دینا۔‘‘ پران نول کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ جو لاہور سے محبت ہے۔ صرف لاہور ہی سے محبت ہے۔ (جاری)