مکرمی !کسی بھی معاشرے میں تعلیم کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتاہے۔ اور عمل تعلیم میں سے اگر معلم کے وجود کو نکال دیا جائے تو طالب اور علم دونوں کسی کام کے نہیں رہتے۔ عصر حاضر میں تعلیم کے پہیے کو چلانے میں جہاں سرکاری سکولوں کے اساتذہ سرگرم عمل ہیں وہیں پرائیویٹ سکولزکے اساتذہ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اگر پچھلے چند سالوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا کہ بورڈ کے سالانہ امتحانات میں نمایاں پوزیشنز پر چمکنے والے ستارے انہی کے دم سے روشن ہیں۔ محترم یہ مزدور جو سارا دن ایک ٹانگ پہ کھڑے ہو کر مستقبل کے معماروں کے سینے نور علم سے منور کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں خود کس مشکل میں گزر بسر کرتے کوئی نہیں جانتا۔ اس مملکت خداداد میں جہاں کم سے کم اجرت پندرہ ہزار سے زیادہ ہے وہیں یہ لوگ تین ہزار سے بارہ ہزار روپوں کے حصول کے لیے سارا دن محنت کرتے ہیں۔ کچھ اداروں میں تنخواہ زیادہ ہے مگر انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ یہاں پرائیویٹ سکولز کی تنظیمیں ہیں جو اپنے حقوق کے لیے ہمیشہ لڑنے مرنے کو تیار رہتیں۔ مگر اساتذہ جنکی تعداد اگر سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے برابر بھی تصور کی جائے تو 3.8 ملین سے زائد لوگوں کے حقوق کے لیے کوئی تنظیم نہیں ہے۔ بدقسمتی کہ انکی تعداد، ملنے والی سہولیات اور تنخواہوں کے اندراج کے بارے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ وہ ادارے جنکی عمارتیں، مالکان کے گھر، انکی ساکھ اور انکے طلبہ کا مستقبل ان کمزور کندھوں پر ٹکا ہے وہ ہر ممکن حد تک ان کا استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب خاموش تماشائی بنے محو تماشہ ہیں۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ان مزدوروں کے لیے اور کچھ نہیں تو اجرت کی کم سے کم سطح کے برابر معاوضے کے امر کو یقینی بنایا جائے۔ (مصباح چوہدری،پاکپتن)