اسلام آباد (خبرنگار)شیخ خلیفہ بن زاید ہسپتال کوئٹہ کے عملے کو مستقل کرنے کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد نے ریما رکس دیئے ہیں کہ تمام ادارے خراب ہو چکے ہیں،ملک کا پوار نظام ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے ۔جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے ہسپتال کے صفائی عملہ ملازمین کی مستقلی کا حکم کالعدم قرار دے کر معاملہ واپس بھیجااور ہدایت کی کہ بلوچستان ہائیکورٹ معاملے کااز سر نو جائزہ لے کر فیصلہ کرے ۔دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے سرکاری اداروں میں ملازمین کی بھرتیوں کے طریقہ کا ر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں10آدمیوں کی ضرورت ہو وہاں500بھرتی کر لئے جاتے ہیں لیکن جہاں500ملازمین کی ضرورت ہو وہاں2بھی نہیں ہوتے ، بھرتیوں کا طریقہ کار ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بینچ نے آئوٹ آف ٹرن پرموشن کیس کے فیصلے کیخلاف پنجاب پولیس کے متاثرہ افسران کی نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے صوبائی حکومت سے جواب طلب کرلیا اور قرار دیا ہے کہ شولڈر پروموشن غیر قانونی ہے اور یہ عدالت کا حتمی فیصلہ ہے ۔دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی ترقیوں کے سسٹم کو ٹھیک کیا جائے ،اہلکاروں کو ترقیاں دینا صوابدیدی اختیار نہیں صرف آئی جی یا کسی ایک افسر کے کہنے پر ترقی نہیں ہونی چاہیے ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے لوڈ شیڈنگ کے بارے رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی اورحکومت کو لوڈشیڈنگ کی صورت میں ترجیحات طے کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ویڈیو لنک پر لاہوررجسٹری سے توہین رسالت کے مبینہ ملزم وجیہہ الحسن کے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے ریما رکس دیئے کہ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ یہ طے کرچکی ہے کہ توہین رسالت کی سزا موت ہے لیکن الزام ثابت کرنا پڑیگا۔عدالت نے قرار دیا کہ یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ توہین رسالت پر مبنی خطوط ملزم ہی نے لکھے تھے جبکہ تحریر ملزم کی ہے یا نہیں اس ضمن میں لکھائی کے ماہر نے حتمی رائے نہیں دی اور شکوک کا اظہار کیا۔ اپیل کی سماعت ہوئی تو ملزم کے وکیل نے کہا کہ خطوط کس نے لکھے اس بارے میں ٹھوس شواہد موجود نہیں،خطوط ان کے موکل سے غلط طور پر منسوب کئے گئے اور پولیس کے سامنے اعتراف جرم کی بنیاد پر سزائے موت دی گئی حالانکہ مجسٹریٹ کے سامنے موکل نے الزام سے انکار کیا۔ عدالت نے ملزم کی سزائے موت کالعدم کرکے اسے عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا اور قرار دیا کہ توہین رسالت میں سزائے موت سے کم سزا نہیں دی جاسکتی۔