وزیر اعظم عمران خان نے کامل شرح صدر کے ساتھ اپنا کامیاب دورہ امریکہ مکمل کر لیا اور اپنا دل اور سینہ کھول کر امریکہ کے سامنے رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ کی حیران کن میزبانی سے مسحور عمران خان نے انہیں ایک دلکش شخصیت قرار دیا اور پھر’’پاکستان کا کس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے داد طلب انداز میں امریکیوں کو بتایا کہ ہم وہاں پاکستان میں آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں، یعنی امریکہ کی جنگ۔ شاید کچھ لوگوں کو اس کایا کلپ پر حیرانی ہو کہ وہ تو عرصے سے جلسہ ہائے عام میں تنقید کیا کرتے تھے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ کیوں لڑ رہا ہے۔ دراصل کوئی کایا کلپ ہوئی ہی نہیں تھی۔ عمران خان روز اوّل سے اس جنگ کے حامی تھے۔ جب پرویز مشرف نے ’’ہماری جنگ‘‘ کا آغاز کیا تو امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان پہلے پاکستانی سیاستدان تھے جنہوں نے اس جنگ کی حمایت کی اور کہا کہ مشرف نے جو فیصلہ کیا ہے‘ اس سے بہتر فیصلہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد انہوں نے ریفرنڈم میں مشرف کی حمایت کی۔ یہ تو بہت بعد کی بات ہے جب انہوں نے جلسوں میں جنگ کے خلاف تقریریں کیں۔ ان کا مخاطب پختونخواہ کے عوام تھے جو جنگ کے حامی کو ووٹ نہیں دے سکتے تھے۔ یعنی یہ تقریریں ایک پریکٹیکل مجبوری تھیں۔جو شرح صدر امریکہ میں ہوا‘ وہ بہت پرانا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم نے جس داد طلبانہ اور فخریہ انداز میں بتایا ہے کہ ہم وہاں (پاکستان میں)آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی اس کی داد کب اور کیسے دیتے ہیں۔ فی الحال یہ ہے کہ امریکہ نے امداد کی جزوی بحالی کا امکان یوں ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں مطلوبہ نتائج مل جائیں‘ تب دیکھیں گے۔ ٭٭٭٭٭ افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ مزید کچھ عرصہ تمام پرنالے اپنی اپنی جگہ رہیں گے۔ مذاکرات کی بحالی اور ان کی کامیابی کے امکانات اس سے کم ہیں جتنے کہ کامیاب نہ ہونے کے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ دل خوش کن منظر نامہ دکھایا جا رہا ہے کہ دنوں کی بات ہے‘ امن عمل شروع ہو جائے گا جس کے بعد امریکی کوچ کر جائیں گے۔ خدا ان کی مراد پوری کرے لیکن میدان میں نامرادیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ طالبان کے بہت سے دھڑے امن عمل پر اندیشوں کا شکار ہیں۔عمل کامیاب ہوا تو الیکشن ہوں گے جو دوسرے جیت جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم اس دورے میں ایک بااعتماد رہنما بن کر ابھرے۔ یہ ان کا ناقابل شکست اعتماد ہی تھا جس نے انہیں یہ کہنے کا حوصلہ دیا کہ آئی ایس آئی کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا۔ اسی بے پناہ اعتماد نے انہیں بھارت کو ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کی دو طرفہ پیشکش کی۔ یہ ایک مثالی پیشکش ہے کیونکہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنے‘ مزید ہتھیار نہ بنانے کی پیشکش سنتی رہی ہے‘ پہلی بار کسی نے ایٹمی ہتھیار سرے سے ہی ختم کرنے کی پیشکش کی ہے۔اسے سراہنے کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے جس اعتماد سے فرمایا کہ قرضے مانگنے سے نفرت ہے۔ قرضے مانگنے والے بھکاری ہوتے ہیں‘ وہ اپنی جگہ بیک وقت تاریخی بھی ہے اور تاریخ ساز بھی۔تاریخ میں دوسرے ملکوں سے سب سے زیادہ قرضہ مانگنے والے عمران خاں جب قرضے مانگنے کے عمل کو شرمناک اور بھکاری پن قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی قائدانہ عظمت اور مثالی مطلوبہ اعتماد کی کھلی نشانی ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے دس سال میں 24ارب ڈالر قرضے لئے۔ اس کے باوجود ان میں ایسے اعتماد کی جھلک تک نہیں تھی۔ سچ ہے عظیم لیڈر قسمت سے ہی ملا کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بحث ہو رہی ہے کہ اس دورے کا حاصل حصول کیا ہوا؟ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے پورچ میں آ کر مصافحہ کیا‘ پھر دونوں نے وائٹ ہائوس میں چہل قدمی کی‘ اپنی جگہ اتنا حاصل وصول ہی کافی ہے لیکن مور اوور کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ باہمی اعتماد قائم ہوا۔ یہ باہمی اعتماد ماضی کے تمام دوروں میں بھی ہر بار قائم ہوتا رہا لیکن بوجوہ اس بار اس کی اہمیت ہے۔ بوجوہ کا عمل نہیں اور اہمیت بھی معلوم نہیں لیکن پھر بھی اہمیت تو ہے۔ سرکاری تجزیہ کار دورے سے پہلے بتاتے تھے۔ فنڈ بحال ہوگا اور 40ارب ڈالر ملنے کا اعلان بھی یقینی ہے۔ اب بتا رہے ہیں کہ دورے کا مقصد امداد لینا تھا ہی نہیں۔ خود وزیر اعظم نے بھی کہہ دیا‘ امریکی امداد نہیں چاہیے۔ بتائیے ‘ اب اس کے بعد کیا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے بجا فرمایا کہ پاکستان میں میڈیا بالکل آزاد ہے۔ البتہ یہ کہہ کر معمولی سا مبالغہ کر دیا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ آزاد پاکستانی میڈیا ہے۔ مبالغہ اس لئے کہ سب سے آزاد میڈیا شمالی کوریا کا ہے۔ پاکستان کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کا ایک اور ثبوت اخبارات میں چھپا ہے۔ یہ خبر نمایاں شائع ہوئی کہ فیصل آباد میں ریلی نکالنے پر مریم نواز سمیت 5ہزار کارکنوں کے خلاف مقدمہ۔ دیکھیے‘ اسی کو تو آزادی صحافت کہتے ہیں۔ مقدمے کی خبر کی آڑ میں یہ خبر بھی چھپ گئی کہ فیصل آباد میں مریم نے کوئی ریلی بھی نکالی تھی۔ یوں وفاقی وزیر فواد حسین کے اختلافی نوٹ کا ازالہ بھی ہو گیا کہ مریم کی خبر چھاپنے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھو‘ اب چھپ گئی۔