ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے مگر وہ نین کہ تونے تھے جو نشیلے کئے ادھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگ ادھر خیال نے پنچھی تمام نیلے کیے لاک ڈائون کے دنوں میں علی الصبح سیر کو نکلتا ہوں تو پہلا تعارف پرندوں سے ہوتا ہے صبح کاذب کے جب روشنی سپیرے کی صورت اترتی ہے تو پرندے کی صدا کانوں میں پڑتی ہے۔ شاید چڑیا پہلے بولتی ہے یا کوئی اور پرندا ‘ بہرحال پرندوں کی آوازیں شامل ہوتی جاتی ہیں حتیٰ کہ کوا بھی آن دھمکتا ہے جب صبح سانس لیتی ہے تو سبزہ و پیڑ پودے آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں اور سانسوں میں مہک در آتی ہے اور دل نہال ہو جاتا ہے جب سے ہم گھروں میں قید ہوئے ہیں پرندے کچھ زیادہ ہی آزاد ہو گئے ہیں ویسے بھی ان کے پر کون باندھ سکتا ہے صبح کی تازگی اور خاموشی میں میرے کان پرندوں کی آوازوں پر لگے رہے۔ ایسے ہی اپنے دوست عباس تابش کا شعر ذہن میں آ گیا: یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے بات تو دل کو لگتی ہے کہ یہ بہت ہی معصوم مخلوق ہے۔ اس حوالے سے مجھے وہ ہد ہد بھی یاد آیا جس نے نارِابراہیم کو بجھانے کے لئے چونچ میں دو قطرے پانی لیا تھا۔ پوچھنے پر اس نے کہا کہ آگ بجھے نہ بجھے وہ تو حجت تمام کرے گا۔ پرندے تو انسان کے استاد بھی ہیں کہ رائیٹ برادرز نے ہوا میں اڑنا انہی سے سیکھا کہ سب کو جہاز پر بٹھا دیا۔ پرندوں کی بہرحال پوری ایک دنیا ہے ’’منطق الطیر‘‘ کے بعد جدید منطق الطیر بھی آ گئی ہے۔ اچانک میرے ذہن مولانا روم کی مثنوی کا وہ طوطا بھی آیا جسے ایک دکاندار نے رکھا ہوا تھا۔ اس سے تیل گر گیا تو دکاندار نے اسے اتنا مارا کہ پر جھڑ گئے۔ ایک گنجے گاہک کو دیکھ کر طوطا اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے کس کا تیل گرایا ہے ۔کیا کروں پرندے ذہن میں آتے جا رہے ہیں۔ یعقوب پرواز کا پرندا بھی کہ اس نے کہا تھا: پرندا آنکھ والا تھا یقینا شکاری ہاتھ ملتا جا رہا ہے یکایک مجھے عدیم ہاشمی کی پرندوں سے رقابت بھی یاد آ گئی کہ اس نے کہا تھا: بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اڑا دیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے پھر میں سوچنے لگا کہ ان پرندوں کو پتہ نہیں معلوم ہے کہ نہیں کہ میرے پر کس نے کاٹے ہیں۔انہیں نہیں معلوم کہ میرے کس بل تو ایک نادیدہ جرثومے کورونا نے نکال دیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پرندے سوچتے ضرور ہونگے کہ اب لوگ پارکوں میں اور سیر گاہوں میں کیوں نہیں نکلتے وہ بھی تو ہمیں دیکھنے کے عادی ہونگے لوگ پرندوں سے واقعتاً پیار کرتے ہیں یہ الگ بات کہ انہیں محبت میں پنجروں کے اندر قید کر لیتے ہیں۔ میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں لیکن مجموعی طور پر پرندے اڑتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں وہ آسمان کا بھی حسن ہیں اور اشجار کی زندگی۔ وہ ہمیں سبق بھی پڑھاتے ہیں: ہم نے تو اڑتے پرندوں سے یہی سیکھا ہے کام آئے تو فقط اپنے ہی بازو آئے دیکھیے بات شروع تو یہاں سے ہوئی تھی کہ یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دیں۔اب دیکھیے اپنی حکومت کون کس کو دیتا ہے۔ یہ الگ بات کہ کوئی کُو کر کے قبضہ کر لے جس طرح کہ جارج آرویل کے ناول اینیمل فارم Animal farmمیں جانور کرتے ہیں وہ حکومت پر قبضہ تو کر لیتے ہیں اور اس عہد کے ساتھ کہ وہ انسانوں والے کام نہیں کریں گے مگر طاقت ملنے کے بعد وہ اپنے عہد نامے سے روگردانی کرتے ہیں اور وہی آفاقی سچائی سر چڑھ کر بولتی ہے کہ طاقت خراب کرتی ہے اور بے انتہا طاقت تو ستیا ناس ہی مار دیتی ہے میں بھی سوچنے لگا کہ فرض کرو پرندوں کی حکومت آ ہی جائے تو اس میں الو کیا کرے گا کیا وہ شاخ شاخ پر آن بیٹھے گا اس میں گدھ کیا کرے گا کیا وہ کسی کے مردہ ہونے کا انتظار کرے گا کئی پرندے میرے ذہن میں آئے بلکہ بانو آپا کے ناول کا راجہ گدھ بھی، ہائے ہائے منیر نیازی کا ایک با کمال شعر یاد آ گیا: اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے خاص طور پر کوا مجھے یاد آیا کہ وہ پرندوں میں سب سے زیادہ ذہین اور چالاک ہے۔ پورا سیاستدان، جانوروں میں سوّر کو ذہین سمجھا جاتا ہے تبھی تو animal farmمیں انہوں نے حکومت بنائی تھی کہ کسی بھی حکومت کے لئے ذہنی کام یہی کرتے ہیں آپ انہیں جانوروں کی بیورو کریسی سمجھ لیں۔ شہباز کا میں نے سوچا کہ اسے کہاں سے ڈھونڈا جائے گا کہ وہ پہاڑیوں میں جا بسیرا کرتا ہے اس کی بلند پرواز ہی اقبال کو بہت بھائی تھی۔ مگر وہ تو اپنے شکار کو بہت اونچائی سے دیکھ لیتا ہے ۔ پرندوں کی حفاظت کی ذمہ داری کس کے پاس ہو گی۔ پرندوں کا ایک رنگین جہان ہے کہ جو کائنات کو خوبصورت بناتے ہیں مجھے تو وہ پرندے یاد آئے جن کا تعلق انسان سے براہ راست رہا۔ مجھے نورجہاں یاد آئی جس کے دونوں ہاتھوں میں شہزاد نے کبوتر پکڑا دیے ایک کبوتر نورجہاں نے اڑا دیا تو شہزاد نے پوچھا یہ کیسے اڑ گیا۔ نورجہاں نے دوسرا ہاتھ بھی کھول دیا’’ ایسے‘‘ طوطے بھی مجھے یاد آئے کہ رٹا ہوا سبق وہ دہراتے رہتے ہیں اور پھر اپنے منہ میاں مٹھو والوں کی تو کمی ہی نہیں۔ ہم نے تو طوطے سے توپ بھی چلوا دی اور فال بھی نکلوا لی۔ اب کسی طوطے سے پوچھو کہ ہمارا لاک ڈائون کب ختم ہو گا۔ چڑیا ہے جو ہمارا ساتھ نبھا رہی ہے کہ سارا دن ہمارے لان میں یا آنگن میں چیں چیں کرتی رہتی ہے۔ ایک رونق ہے اس کی وگرنہ تو ہم ہیں بیوی ہے اور بچے۔ سب اپنے اپنے کمروں میں۔ لاک ڈائون نرم ہے مگر سمجھداری تو یہی ہے کہ فی الحال گھر ہی میں قیام کیا جائے۔ محتاط رویہ بہرحال فائدہ مندہے۔ مجھے ایک بچی کی بات نہیں بھولتی کسی نے اسے لاسٹک کے سانپ سے ڈرایا اور کہا اسے چھو کر دکھائو۔ بچی نے کہا اسے معلوم ہے کہ یہ پلاسٹک کا سانپ ہے پھر بھی کیا پتہ ہوتا ہے؟چلیے ہم نے آج آپ کے ساتھ پرندوں کی باتیں کیں۔ آپ نے بھی اچھا ہی محسوس کیا ہو گا۔ اب اقبال کے پرندے پر کالم ختم کرتے ہیں: خودی کی شوخی و تندی میں کبرو ناز نہیں ناز ہو بھی تو بے لذت و نیاز نہیں نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکار مردہ سزا وار شاہباز نہیں