اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا غالباً فطری طور پر مجھے پرندوں سے محبت ہے۔ نہ جانے وہ کیسے لوگ ہیں جو پرندوں کو اڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور ان کی جان لینے کو وہ کھیل سمجھتے ہیں۔ ایک ننھی سی جان کو لقمہ بنا لیتے ہیں۔ کسی پرندے کے حلال ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس کی نسل کے ختم کرنے میں لگ جائیں۔ مجھے ظہور دھریجہ کی کرلاٹ نے ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے چولستان کے پرندوں کا نوحہ بجا طور پر کہا ہے۔ انہوں نے اپنا دل لفظوں میں رکھ دیا ہے مگر یہ بے حس سفاک لفظوں میں کب جھانکتے ہیں۔ چولستان بہت ہانٹ کرنے والا علاقہ ہے۔ ایک مرتبہ جب ہم بہاولپور کی ڈاکومنٹری بنانے کے لیے پی ٹی وی ٹیم لے کر گئے تو میں بحیثیت سکرپٹ رائٹر ساتھ تھا۔ میں کھلے علاقے میں نکلا تو ریگستانی اور زمستانی ہوائیں میرے بدن سے ٹکرائیں تو میں نے بے ساختہ کہا: وچ روہی دے آیا میں میرے دل تے کھلے بھیت تو ایں وانگ ہواواں دے، میں صحراواں دی ریت ظہور دھریجہ نے تلوار اور دوسرے پرندوں کی بات کی ہے کہ جن کی نسل ختم کروائی جا رہی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ Migratery Birds کے حوالے سے میں ایک نظم ’’بوم رینگ‘‘ پڑھاتا تھا جس میں شاعر بتاتا ہے کہ سائبیریا سے ہجرت کے آنے والی مرغابیاں ہزاروں میل کا سفر کرکے سندھ کی جھیلوں پر پناہ حاصل کرنے آتی ہیں۔ ظاہر ہے سائبیریا کی یخ بستہ فضا ان کے لیے سازگار نہیں رہتی اور پھر مرغابیاں غول در غول وہاں سے اڑان بھرتی ہیں اور سندھ کی جھیلوں کی خوشگوار فضا میں آتی ہیں مگر ان کو کیا معلوم کو ان کا استقبال گھات میں بیٹھے ہوئے شکاری کریں گے اور زندگی بچانا ان کو موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ ہائے ہائے یہ خوشنما پرندے جو آسمان کا حسن ہیں، ایک فائر سے گرالیے جاتے ہیں۔ مرغابیوں کے یہ شکاری برس ہا برس کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ کھیل بھی ہے اور کھانا بھی۔ جب مرغابیاں اترنا شروع ہوتی ہیں تو یہ شکاری بھی ٹولیوں کی صورت نکلتے ہیں، گھاس میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ان مرغابیوں کو پہلے اڑایا جاتا ہے اور پھر تجربے کی بنیاد پر اس سے آگے پیچھے شکاری ان پر فائر کرتے ہیں۔ مرغابیاں مر کر یا زخمی ہو کرزمین پر آ گرتی ہیں۔ وہ بچتی بھی ہیں مگر تابکے۔ یعقوب پرواز نے کہا تھا: پرندہ آنکھ والا تھا یقینا شکاری ہاتھ ملتا جارہا ہے لیکن مرغابیاں گرانے والے شکاری تونت نئے انداز اپناتے ہیں۔ وہ آنکھ والے پرندے کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب مرغابیاں انہی شکاریوں سے بچنے کے لیے جھیل کے درمیان جا کر خشکی پر بیٹھ جاتی ہیں کہ وہ اسی جگہ کو محفوظ خیال کرتی ہیں۔ یہ شکاری ایک خالی کشتی کو دھکیلتے ہوئے دھیرے دھیرے اس خشکی کی طرف لے جاتے ہیں۔ مرغابیوں کو گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ چیز جس پر کوئی انسان نظر نہیں آرہا درپردہ اسے وہی استعمال کر رہا ہے۔ جب یہ کشتی جو خالی ہے خشک جگہ پر پہنچتی ہے اور اس کو پکڑ کر آنے والا شخص اپنے آپ کو باہر نکالتا ہے اور مرغابیاں اسے دیکھ کر پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے اڑتی ہیں تو تھوڑی دور چھپے ہوئے شکاری تاک میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح چولستان سے تلور اور دوسرے پرندوں کو شکار کیا جاتا ہے۔ بات یہ کہ پرندے صرف شکار ہونے کے لیے پیدا نہیں کئے گئے۔ کیا چوپائے کافی نہیں کہ گائے، بیل اور بکرے سب ہمارے پیٹ کا ایندھن ہی تو بنتے ہیں۔ پرندے آسمان پر کتنا پیار اور خوش نما منظر بناتے ہیں۔ میں تو اکثر چھت پر لیٹ کر ان کو اڑتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ مجھے تو کیٹس بھی اس لیے پسند ہے کہ وہ نائٹ اینگیل اور ککو کی بات کرتا ہے۔ فطرت کا شاعر ورڈز ورتھ بھی پرندوں کا دلدادہ تھا۔ پرندوں کے نغمے اور چہچہاہٹ ہمیں کس قدر آسودگی بخشتی ہے۔ خالد احمد نے کہا تھا: جال میں دانہ رکھنے والو ہم یہ بھورے کب تک کھائیں ان کی ایک لائن میں کمال ہے ’’سحر کی شاخ یہ پہلی صدا پرندے کی‘‘ واقعتاً یہ پرندے سحر دم اپنے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور سر شام اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ وہ ہماری طرح برسوں کے لیے ذخیرہ نہیں کرتے۔ کسی کا استحصال نہیں کرتے۔ قدرت نے اپنی خوبصورت مخلوق کو پر عطا کئے تاکہ وہ ہماری رسائی سے باہر رہیں اور آسمانوں کی سیر کریں مگر ہم نے آسماں پر کمندیں ڈالنے کی بجائے پرندوں پر ڈال دی۔ انہیں بھی زمین پر لے آئے۔ یہ تو شکر ہے کہ ہم اڑ نہیں سکتے وگرنہ کوئی پرندہ نہ بچتا۔ پرندوں میں مجھے کوئل کا خیال آیا، یقینا وہ ککو ہی ہے یا کچھ فرق ہوگا۔ بشریٰ رحمن کو تو چولستان کی بلبل کہا جاتا رہا۔ یہ خوش گلو پرندے سحر طاری کردیتے ہیں۔ہم اسلام آباد کی بلند ترین جگہ منال گئے تو وہاں عرصے کے بعد بلبل کی آواز سنی۔ یہ آواز جنگل کو مزید پراسرار بنا رہی تھی۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ شہزادے جو آئے دن اپنے بازوئوں پر بازوں کو بٹھائے چولستان میں چلے آتے ہیں اور ہمارے بھوکے افسر جوان کے ساتھ پٹواریوں اور منشیوں کی طرح شکار کھلاتے رہتے ہیں۔ عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دوسری جگہ میں ان شہزادوں کا سوچتا ہوں تو ان کا کیا مصرف ہے۔ انہیں اور کوئی مثبت کام آتا ہی نہیں یا پھر اونٹوں کی دوڑ اور دولت کے نشے میں ہیں۔ اپنے جہاز کو سونے کی سیڑھی لگانے والے آخر اپنا کیا تشخص رکھتے ہیں۔ انہوں نے شکار کے علاوہ کبھی اپنے بارے میں بھی سوچا کہ وہ کس کے نشانے پر ہیں۔ ٹرمپ نے تو صاف بک دیا کہ سعودیہ ان کی مدد کے بغیر دو دن بھی حکومت قائم نہیں رکھ سکتا۔ یہ سب کچھ لکھتے ہوئے تکلیف ہوئی ہے۔ ہمارا رخ کدھر ہے، ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ پرندوں کا شکار اپنی جگہ ہم نے تو جنگل تک کاٹ دیئے کہ پرندے وہاں بسیرا کرتے تھے۔ یہی جنگل ہمارے موسم بناتے تھے، سیلابوں سے ہمیں محفوظ رکھتے تھے۔ گویا ہم جس ٹہنی پر بیٹھتے تھے اسے ہی کاٹ دیا، ہمیں گرنا تو تھا۔ نہ جانے پروین شاکر کیوں یاد آئی: ہم وہ شہزاد سیہ بخت کہ دشمن کی بجائے اپنے لشکر کے سبب شہر میں محصور ہوئے