یورپی یونین کی ایئر سیفٹی ایجنسی نے یورپی ممالک کے لئے پی آئی اے کے فضائی آپریشن کو چھ ماہ کے لئے معطل کرنے کے اعلان کے بعد تین دن تک مزید پروازیں جاری رکھنے کی اجازت دیدی ہے۔غالباً یہ سہولت مسافروں کو فوری نوعیت کے کچھ مسائل سے بچانے اور حکومت پاکستان کی خصوصی درخواست پر فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ خلیجی ممالک‘ ویتنام اور دنیا کے دیگر کئی ممالک کی فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے متعدد پاکستانی ہوا بازوں کو گرائونڈ کر دیا گیا ہے۔ برسہا برس سے خدمات انجامدینے والے یہ ہوا باز خدشات کا شکار ہورہے ہیں۔ پاکستان کے لئے تشویشناک یہ فیصلے وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کے اس بیان کا ابتدائی نتیجہ ہیں جس میں انہوں نے قومی ایئر لائن میں بدانتظامی اور سیاسی مداخلت پر بات کرتے کرتے یہ انکشاف کر ڈالا کہ قومی ایئر لائن میں لائسنس والے پائلٹس کو سابق حکومتوں نے بھرتی کیا۔حالانکہ انہیں لائسنس کی بجائے ڈگری کے معاملے پر بات کرنی چاہیے تھی اور وہ بھی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد۔ یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی(ایازا)کی جانب سے ارسال کئے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کو تھرڈ کنٹری آتھرائزیشن (اجازت نامہ)17مئی 2016ء کو جاری کی گئی تھی۔ اس اجازت نامے کی رو سے ایازا پی آئی اے کے معاملات کی گاہے بگاہے نگرانی کرتی رہتی ہے۔ پی آئی اے اور ایازا کے درمیان دو مشاورتی اجلاس جرمنی کے شہر کولون میں 13جون 2019ء اور 3ستمبر 2019کو ہوئے۔ ایازا نے ان اجلاسوں میں پی آئی اے کے سامنے 6ایسے نکات اٹھائے جو درجہ بندی کے اعتبار سے دوسرے درجے کے تھے۔ ایک نکتہ سیفٹی مینجمنٹ کے حوالے سے تھا۔ پی آئی اے ایازا کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا اور دی گئی کافی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ ماہرین کے مطابق ایوی ایشن سیفٹی مینجمنٹ سسٹم ایک ایسا منظم طریقہ کار ہے جس کے تحت ایئر لائنز اپنے انتظامی معاملات‘ جوابدہی کے حوالے سے پالیسیوں اور طریقہ کار کو مربوط بناتی ہیں۔ اس کا مقصد طیاروں اور عملے کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔مذکورہ خط میں یہ لکھا گیا ہے کہ ایازا کو پاکستان کے وزیر ہوا بازی کی پیش کردہ معلومات پر تشویش ہے کہ پاکستانی پائلٹوں کے لائسنس موجودہ صورت حال میں اس قابل نہیں کہ پی آئی اے طیاروں کی تصدیق اور نگرانی کا عمل بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں انجام دیا جا سکے۔ پی آئی اے نے اس خط کا جواب 28جون کو ارسال کیا جسے ایازا نے ناکافی قرار دیا۔ قوانین کے تحت پی آئی اے اس فیصلے کے خلاف اگلے دو ماہ میں مطلوبہ فیس ادا کر کے اپیل دائر کر سکتا ہے۔ ایازا چھ ماہ کے دوران پی آئی اے کے اجازت نامے کو بحال کر سکتا ہے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ پی آئی اے اپنے اصلاحاتی منصوبے کے ذریعے ایازا کو مطمئن کرے۔ مئی 2020ء میں جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 8برسوں کے دوران پہلی بار قومی ائیر لائن خسارے سے نکل کر منافع کے دائرے میں داخل ہوئی۔ پی آئی اے نے ایک سال کے دوران 7.8ارب روپے منافع کمایا۔اس کارکردگی کا کریڈٹ ادارے کے نئے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک کو دیا گیا تاہم اس دوران سندھ ہائی کورٹ میں ان کی اہلیت کے حوالے سے ایک درخواست دائر کر کے انہیں عہدے سے ہٹوا دیا گیا۔ بعدازاں عدالت عظمیٰ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو فضائیہ کے حاضر سروس افسر کے طور پر پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دیدی۔ پاکستان میں آئے روز ایک نیا بحران سر اٹھاتا ہے۔ انتظامی افسران اور سیاسی نمائندے ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں تو ایسے بحرانوں پرابتدا میں ہی قابو پایاجا سکتا ہے۔ یورپی یونین کے فیصلے کا سبب بھی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل بنا۔وزیر ہوا بازی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ عالمی سطح پر کچھ قوتیں پاکستان کے معاشی مفادات کے درپے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف میں بھارت جو کچھ کر رہا ہے وہ ہمیں محتاط بنانے کے لئے کافی ہونا چاہیے تھا۔ وزیر ہوا بازی کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ ایازہ جیسے ادارے پہلے ہی پاکستان کی قومی ایئر لائن کے حفاظتی نظام سے مطمئن نہیں۔قومی اسمبلی کے فلور پر اگر وہ تقریر کرتے ہوئے خود کو پی آئی اے کی خرابیوں کی نشاندہی تک محدود رکھتے تو بہتر تھا۔ پائلٹوں کی اہلیت پر سوال اٹھا کر انہوں نے نہ صرف پی آئی اے نہیں بلکہ دنیا بھر میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹوں اور خود پاکستان کے نظام کی شفافیت پر حملے کا جو موقع دیا ہے اس کے مزیدبرے نتائج آ سکتے ہیں۔ بہتر ہوتا پہلے انکوائری کرائی جاتی پھر جعلی لائسنس والوں کے خلاف خود کارروائی کی جاتی۔ اس طرح نقصان کا حجم محدود کیا جا سکتا تھا۔ یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کے سب سے زیادہ تجارتی تعلقات ہیں۔ لاکھوں پاکستانی یورپی ممالک اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔تجارتی مال اور پاکستانیوں کے سفر کا بڑا ذریعہ پی آئی اے رہی ہے بندش کے فیصلے سے ادارہ ایک بار پھر خسارے میں جا سکتا ہے ‘حج آپریشن نہ ملنے سے اس برس پہلے ہی مالی دبائو بڑھ چکا ہے۔اس صورت حال میںوزیر اعظم اپنی کابینہ اور اہم عہدوں پر تعینات افراد کو قومی مفادات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کریں اور یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی کے اعتراضات کا قانونی طور پر فوری ازالہ کر کے پاکستان کو مزید نقصانات سے بچانے کا چارہ کیا جائے۔