قلم اور حرف کی حرمت کے لئے جن گنے چنے لوگوں کا نام سرفہرست ہے وارث میر کا شمار ایسے ہی مردان حُر میں کیا جاسکتاہے جو اوائل عمری سے ہی ادب ،مذہب ،فلسفہ اور نفسیات سے شغف رکھتے تھے۔مطالعہ کا بہت زیادہ شوق رکھنے کی وجہ سے انہیں تحقیق سے دلچسپی پیدا ہوئی جس کا رنگ ان کی ہر تحریر میں نظر آتاہے ۔ جب وہ میدان عمل میں آئے تو خود کو ایسے ماحول میں پا یا جہاں دائیںبازو کی سیاست اور صحافت کا دور اپنے عروج پر تھا ۔ انہوں نے چونکہ ایوب دور میں اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا اس لئے ان کی اس دور کی تحریروں میں بھی ضیاء دور کی تحریروں کی جھلک نظر آتی ہے۔ دونوں ادوار میں انہو ں نے مارشل لا حکومت کی مخالفت اور صحافت پر عائد پابندیوں کی مذمت کی ۔ وارث میر ایک بااصول دیانتدار صحافی تھے۔ لیکن وہ ایک معلم بھی تھے ، کالم نگاربھی تھے ،مصنف اور محقق بھی تھے اور ایک منکسر المزاج بامروت با اخلاق انسان تھے ۔دوستوں کے دوست اور گھر والوں کیلئے ذمہ دار شوہر اور شفیق باپ بھی تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اللہ کے سواکسی سے نہیں ڈرتے تھے ۔ کوئی دبائو خوف یا مصلحت انہیں اپنے نظریات کے اظہار سے روکنے پر قادرنہ تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں ایک روشن خیال ترقی پسند تھے لیکن سکہ بند مخصو ص نظریات کے پیرو ترقی پسند انہیں ترقی پسند تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔ پیشہ ور ترقی پسند انہیں ملائیت کا طعنہ دیتے تھے اور ملاّانہیں ترقی پسند کہہ کر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ سوشلزم کے بارے میں انکا مطالعہ جغادری ترقی پسندوں سے کہیں زیادہ تھا۔ لیکن وہ حقیقت پسند انسان تھے ۔ وہ کٹر مسلمان تھے لیکن عقل و دانش کے استعمال کی بناء پر اجتہاد کے قائل تھے ۔ سوشلزم کے قائل تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ اگر اس میں سے الحاد کو خارج کردیا جائے تو یہ اسلام کے بہت قریب ہے ۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا اور وہ اس مطالعے کو عقل ودانش اور اپنے علم کی روشنی میں رکھ کر اس کا تجزیہ کرنے کے عادی تھے۔ ان کا یہ معاملہ تھا کہـ۔۔۔ زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں یہی وجہ ہے کہ وہ ساری زندگی متنازعہ رہے، لیکن اپنے خیالات ونظریات کا اظہار کرنے سے کبھی باز نہیں رہے۔ صدر ضیاء الحق کے طویل دور حکومت میں جب بڑے بڑے سورما خوشامدی صحافت کررہے تھے تو وارث میر نے ڈنکے کی چوٹ پر ان کی حکومت اور طرز حکومت پر نکتہ چینی کی اور اس قدر بے رحمی اور بے جگر ی سے لکھا ہے کہ بعض پڑھنے والے ڈرجاتے تھے کہ دیکھئے !اس شخص کا کیا انجام ہو لیکن پروفیسر وارث میر کی لغت میں ڈر اور مصلحت نام کا کوئی لفظ موجود نہ تھا۔ انہیں کتابوں سے عشق تھا لیکن ان کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ ’’اظہار عشق‘‘سے بھی مطلق نہیں جھجکتے تھے ۔ظاہر ہے کہ اس مزاج اور تیور کے انسان کو پریشانیوں اور ذہنی دبائو کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے وہ عمر بھر مختلف قسم کے دبائو برداشت کرتے رہے۔ اگر ان کا بس چلتا تو ہمیشہ کرتے رہتے لیکن ان کے ذہنی اور جسمانی نظام نے ان کا ساتھ نہ دیا اور یہ بے وفائی اچانک وفات کا سبب بن گئی ۔ ایک مشکل یہ تھی کہ وسیع مطالعے کے باعث کوئی انہیں قائل نہیں کرسکتا تھا لیکن ان میںیہ خوبی تھی کہ دوسروں کے تجزیئے کو درست سمجھتے تو اس کا بلا جھجک اظہار کردیتے تھے ۔ انہوں نے ایک بار اپنے نوعمر بچے کو ٹارزن کی کتاب پڑھتے پایا تو مشورہ دیا کہ اگر وہ بہادر کی زندگی جاننا چاہتا ہے تو ٹیپو سلطان کے بارے میں پڑھے جس کے بقول گیدڑکی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بدر جہا بہتر ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے وارث میر نے جس ملک ، ماحول اور معاشرے میں جنم لیا تھا ، وہ ان جیسے انسانوں کو برداشت کرنے سے قاصر تھا ورنہ انہوں نے تحریرو تقریر اور تحقیق و تجزیہ نگاری ،کالم نگاری اور صحافت میں جو کارنامے سر انجام دئیے ، زندہ اور باشعور معاشرے میں انہیں بہت بلند مقام دیا جاتا ہے ۔ وہ اپنے فہم و شعور کے مطابق ہر غلط بات کی مخالفت میں بے دریغ صدا بلند کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور یہی عادت انہیں لے ڈوبی یا پھر اس کی بدولت وہ ایک منفرد اور ناقابل فراموش کردار بن گئے ۔ ذاتی زندگی میں وہ خوش مزاج ، خوش اخلاق اورہنس مکھ تھے۔لاکھ اختلافات کے باوجود ان کی پیشانی پر بل اور رکھ رکھائو میں فرق نہیں پیدا ہوتا تھا۔ وارث میر کے بارے میں لکھنا آسان کام نہیں ہے ۔ ان کی زندگی اور کردار کے ہر پہلو پر بے شمار صفحات لکھے جا سکتے ہیں ۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ ہر غلط کام کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ جب تک جیئے خوش و خرم زندگی بسر کی ۔ ان کے ظاہری برتائومیں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بے رحمانہ تحریروں اور تقریروں کے باوجود وہ ایک پسندیدہ اور دلکش شخصیت سمجھے جاتے اور ہر محفل میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے ۔ پروفیسر وارث میر کی شخصیت پر کشش تھی جو ان سے ایک بار ملتا اسے دوسری بار ملنے کی خواہش ہوتی تھی۔ ان میںسادگی اور ملنساری بھی تھی میری پختہ رائے ہے کہ ’’وہ محبت کرنے والے شخص تھے ، وہ ایسے شخص تھے جن سے کسی کو بھی نقصان نہیں ہوا وہ کسی کے بارے میں براسوچنا بھی ’’برا‘‘سمجھتے تھے۔لیکن اس ملک ومعاشرہ میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے پروفیسر وارث میر کے خلاف محاذ بنا رکھا تھا جن کی کوشش ہوتی کہ پروفیسر صاحب کو ’’ذہنی تشدد ‘‘کا نشانہ بنایا جائے ۔انہیں علم تھا کہ پروفیسر بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو مغموم ہو جاتے تھے ۔ ایک مقامی ہوٹل میں ایک ایسی تقریب میں جہاں ایسے لوگ بھی مقرر تھے جو پروفیسر کے مخالف کہے جاتے تھے ، ایک نے اپنی تقریر میں پروفیسر صاحب پر چند جملے کسے ۔ تو پروفیسر وارث میر غصہ میں آگئے اور اپنی تقریر میں انہیں ’’صحافی ،سیاسی یاادبی جگے‘‘کہہ کر مخاطب کیا اور کہا’’میں اس جگے پن کا مقابلہ کروں گا‘‘مجھے یادہے کہ اس تقریب کے بعد پروفیسر وارث میر خاصے اداس تھے ۔ایک بات پکی اور سچی تھی کہ زندگی کے سفر میں سب کچھ وارث میر نے اپنی اہلیت و صلاحیت سے حاصل کیا تھا اسے’’سیلف میڈ‘‘قراردیا جاسکتا ہے ۔ ان کا تعلق علم و ادب کے گھرانے سے تھا، انکے والد محترم اردو کے اچھے شاعروں میں شمار ہوتے تھے اور ’’قلم‘‘انہیں ورثہ میں ملا تھا وارث میر کی تحریر میں روانی اوردلیل ہوتی تھی جو لکھنے پڑھنے والے کو نہ صرف متاثر بلکہ قائل بھی کرتی تھی۔