ایک بار اوول گرائونڈ میں کالج کے اساتذہ اور ایم۔اے کے طلباء میں کرکٹ کانمائشی میچ ہورہا تھا۔ ۔ اساتذہ کی ٹیم کی کپتانی ڈاکٹر صاحب کر رہے تھے۔ ایک سینئر لڑکا مائیک پر کمنٹری کر رہا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کھیلنے کے لئے آئے تو اُس کی کمنٹری کا اندازہ کچھ یوں تھا: " ہم سب کے محبوب ، جناب پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سید نذیر احمد بیٹنگ کے لئے تشریف لا رہے ہیں" ۔ یہ سن کر کسی تماشائی نے با آواز بلند کہا" با ادب ، با ملاحظہ ، ہوشیار" اور فضا ایک بھر پور قہقہے سے گونج اُٹھی۔ ڈاکٹر صاحب نے نظر اُٹھا کر کمنٹیٹر کی طرف دیکھا اور پھر بیٹنگ کرنے لگے۔ چند ایک اوورز کھیلنے کے بعد ایک بال جو سیدھا مڈل سٹمپ کو ہٹ کر رہا تھا ، ان کے پیڈ پر لگا۔ یہ LBW کا واضح کیس تھا۔ اکرام ربانی ایمپائر تھے ( جو بہت اچھے کرکٹر تھے اور بعد میں انٹر نیشنل ایمپائر بھی بنے اور جی سی سے پروفیسر آف پولیٹیکل سائنس کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے۔ ماشاء اللہ بقیدِحیات ہیں اور فون پر ان سے گپ شپ رہتی ہے) ۔ جب بال ڈاکٹر صاحب کے پیڈ پر لگا تو بالر نے یونہی رسماً آئوٹ کی اپیل کی لیکن اکرام ربانی نے اپیل سنی ان سنی کر دی۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے وکٹ کیپر سے کہا ، " سچ سچ بتائو میں LBW ہوا ہوں کہ نہیں۔ وکٹ کیپر بھی صحیح جج منٹ کر سکتا ہے ۔ ـ" وکٹ کیپر ڈاکٹر صاحب سے جھوٹ بولنے کی ہمت نہ کر سکا۔ " جی ڈاکٹر صاحب، آپ آئوٹ ہیں"۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب پویلین کی طرف چل پڑے۔ جب ڈاکٹر صاحب خود کو آئوٹ قراردے کر واپس آرہے تھے، کمنٹیٹر نے پھر قصیدہ خوانی شروع کردی: " جنا ب پرنسپل کی عظمت ملاحظہ فرمائیے۔ انھوں نے ایمپائر کا فیصلہ ماننے کے بجائے اپنے ضمیر کے فیصلے کو ترجیح دی۔ کیا آپ نے کبھی ایسا کرکٹر دیکھا ہے؟" ڈاکٹر صاحب اپنی سیٹ کی طرف جانے کے بجائے اُس کمنٹیٹر کی طرف بڑھے اور پاس جا کر کہنے لگے: " بیٹا، کھلاڑی صرف کھلاڑی ہوتا ہے۔ سب کھلاڑی بحثیت انسان برابر ہوتے ہیں۔ تمہاری قصیدہ خوانی اور مبالغہ آرائی مجھے پسند نہیں آئی۔ ہر چیز کی طرح کمنٹری کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ جو بھی کہو غیر جذباتی انداز میں غیر جانبداری سے کہو"۔ ڈاکٹر صاحب یہ کہہ کر اپنی سیٹ پر جا بیٹھے۔ جناب قارئین ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہُ کس طرح اپنے شاگردوں کی اخلاقی تربیت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر شاگرد تہِ دل سے ان کا احترام کرتا تھا اور ان کا شاگرد ہونے پر فخر کا اظہار کرتا تھا۔ اُستاد صرف کلاس روم ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ استاد ہوتا ہے اور جہاں موقع ملے اپنے شاگردوں کی تربیت کرتا ہے۔ بظاہر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت غیر متاثر کن تھی لیکن وُہ چہرے مہرے سے ایک مہذّب ، تعلیم یافتہ ، ذہین اور مدبّر شخص لگتے تھے۔ اُن کے چہرے پر ایک عجیب سی کشش تھی جس کا ظاہری خوبصورتی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ان کی مسکراہٹ ایک معصوم اور مہربان شخص کی مسکراہٹ تھی۔ ان کی باڈی لینگوئج مشرقی تہذیب کی مظہر تھی۔ ان کی رُوح کی خوبصورتی شکل کے عامیانہ پن پر غالب آچکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب یوں تو زوالوجی کے پروفیسر تھے لیکن ان کا اروو ادب اور بالخصوص پنجابی ادب کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ وُہ خود شاعر نہیں تھے لیکن شعر فہمی اُن پر ختم تھی۔ صوفی شعراء کا کلام انہیں ازبر تھا۔ وُہ طبعاً درویش تھے۔ زندگی بسر کرنے کا اندازہ بھی درویشانہ تھا۔ روپے پیسے سے اُنہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ ہر ماہ پوری تنخواہ خرچ ہو جاتی تھی۔ ان کے گھر میں بنک بیلنس کا تذکرہ میں نے کبھی نہیں سُنا۔ کوئی پلاٹ لیا نہ گھر بنایا۔ گورنمنٹ کالج سے ریٹائر ہوے تو پیکجز لمیٹیڈ کے سید بابر علی نے اُن سے رابطہ کیا۔ سید بابر علی بھی صوفی شعراء کے عاشق تھے۔ وُہ چاہتے تھے کہ صوفی شعراء کا کلام بہترین آرٹ پیپر پر دلکش انداز میں چھاپا جائے۔ کاغذ اور پریس ان کا اپنا تھا۔ روپے کی کمی نہ تھی۔ ان کے خیال میں اس کام کے لئے ڈاکٹر صاحب جیسے شخص کا ملنا نا ممکن تھا۔ چنانچہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ وُہ اِس کام کا ذمّہ لیں اور اِسے پایئہ تکمیل تک پہنچائیں۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے آمادگی ظاہر کی تو سید بابر علی بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پیکجز لمیٹیڈ میں ان کے لئے ایک نہایت شاندار فتر بنوایا جہاں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب صوفی شعراء کا کلام ایڈٹ کرتے اور حواشی لکھتے۔ یہ نہایت محنت طلب کام تھاجو غیر معمولی ذہانت ، علمیت اور ادبی ذوق کا تقاضا کرتا تھا۔ اس مشکل کام کو ڈاکٹر صاحب نے تن تنہا نہایت حسن و خوبی سے انجام دیا۔ اور پھر یہ کتابیں انتہائی دلکش گٹ اپ میں بہترین آرٹ پیپر پر زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کالج ہی کی کوٹھی میں رہ رہے تھے۔ سید بابر علی نے ڈاکٹر صاحب کو عارف جان روڈ لاہور کینٹ میں تقریباً ایک کنال کا پلاٹ دے دیا۔ چند تنخواہیں اڈوانس بھی دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ریٹائرمنٹ پر ملنے والے روپوں میں یہ اڈوانس تنخواہیں ڈالیں اور اُس پلاٹ پر ایک سادہ سا سٹرکچر کھڑا کر لیا۔ ان کا دوسرا بیٹا ایک فارما سیو ٹیکل فرم میں میڈیکل REP تھا۔ کچھ ڈاکٹر صاحب کی پنشن تھی۔ بُرا بھلا گزارہ ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس وُہی پُرانی سی کار تھی۔ سعید راجن کچھ عرصے کے بعد ہالینڈ چلا گیا۔ وُہ جنوری 2018ء میں وفات پا گیا۔ والدین اور بھائی کی وفات کے بعد وُہ شاید ایک آدھ بار ہی پاکستان آیا تھا۔ اُس سے میری آخری ملاقات دس بارہ سال پہلے ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی میں اب غالباً ان کی منہ بولی بیٹی اور داماد رہ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں میری معلومات زیادہ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب شاعری کے علاوہ موسیقی کے اسرارو رموز سے بھی آگاہ تھے۔ ان کے ایک سگے بھائی موتی شاہ تھے، جو اُس دور میں لاہور کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔ ان کی رہائش گمٹی بازار سے ذرا آگے نو گز ے کی قبر کے پاس والی گلی میں تھی۔ موسیقی اور گانا موتی شاہ صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ وُہ فقیرانہ لباس پہنتے اور کبھی کبھار گورنمنٹ کالج بھی تشریف لاتے۔ کالج میں ہم لوگ اُنھیں ٹک شاپ پر بٹھا کر ان کی خاطر مدارت کرتے۔ ہم گانے کی فرمائش کرتے تو جواب ملتا، " نذیر نے مجھے کالج میں گانے سے منع کر رکھا ہے۔ اگر ضرور میرا گانا سُننا ہے تو کسی روز میرے گھر آجانا ۔ نوگزے کی قبر کے قریب پہنچ کر کسی سے پوچھ لینا موتی شاہ کا گھر کہاںہے۔ موتی شاہ صاحب اتنی بلند آواز میں گاتے تھے کہ ان کا گانا دور دور تک سنائی دیتا تھا۔ موتی شاہ صاحب زیادہ پڑھے لکھے تو نہ تھے لیکن ان کا مزاج ڈاکٹر صاحب کی طرح درویشانہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب تو چھوٹے قد کے سمارٹ انسان تھے لیکن موتی شاہ صاحب لحیم شحیم اور قد آور شخصیت تھے۔ قیام پاکستان سے کئی سال قبل جب ڈاکٹر صاحب بمبئی سے اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور آئے تو اسی مکان میں ٹھہرے تھے۔ جب انہیں گورنمنٹ کالج میں سرکاری رہائش ملی تو وہاں منتقل ہوگئے لیکن موتی شاہ اور دوسرے افراد وہیں رہے۔ موتی شاہ کا انتقال بھی اسی مکان میں ہوا تھا۔ موتی شاہ کی بیٹھک میں موسیقی کے ماہروں ، گلوکاروں اور شائقین کا ہجوم رہتا تھا۔ شاہ صاحب کے معتقدین میں علاقے کی بہت سی طوائفیں بھی تھیں جو ان کا بے حد احترام کرتی تھیں اور انہیں پیرو مرشد کا درجہ دیتی تھیں۔ (ختم شد)