ہمارے امریکی میزبان پروفیسر ونڈھم لوپسیکو ‘ یونیورسٹی آف ڈینور میں (global perspective of business)کے استاد تھے اور عالمی منڈی کے سیاسی اور معاشی زاویوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ وہ ایک جہاندیدہ‘ کایاں اور کسی حد تک متعصب دانشور تھے۔ اس کے علاوہ وہ ڈینور میں welaکے نام سے ایک کاروباری مشاورت کی کمپنی کے مالک تھے۔ جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں کاروبار کرنے کے خواہش مند امریکیوں کو پیشہ ورانہ مدد اور مشاورت دیتی ہے۔ بہرحال پروفیسر ونڈھم نے آغاز میں ہمارے ساتھ پروفیسروں والا رویہ اختیار کرتے ہوئے ہم پر تابڑ توڑ سوالات کرنے شروع کر دیے۔ جو پاکستان کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام ‘ سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت‘ اور دہشت گردی بدامنی کے ماحول میں کمزور پڑتی معیشت کے حوالے سے تھے۔ پھر ہمارے نئے وزیر اعظم عمران خان کو ایک Populist سیاسی رہنما قرار دے کر اس کے حوالے سے متعصبانہ باتیں کرنا شروع کر دیں اور ہم جو ان کے گھر مہمان کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔ اوپر سے ان کے پالتو کتے سے خوفزدہ ہو کر ذرا کچھ دیر مروت میں پروفیسرونڈھم کی پاکستان کے بارے میں متعصبانہ گفتگو کو نظر انداز کرتے رہے۔ پھر بالآخر میں نے کہا کہ مسٹر ونڈھم ! ہر ملک کے کچھ روشن پہلو ہوتے ہیں جو اس کی طاقت بنتے ہیں اور یقینا کچھ کمزوریاں بھی ہوتیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہے۔ اس طرح امریکہ میں بھی سب اچھا نہیں ہے۔ آپ کے ملک کے بھی کچھ کمزور اور تاریک پہلو ہیں جنہیں گفتگو کا موضوع بنانا آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔ پروفیسر نے اگلا سوال کر دیا۔ نئی حکومت سے آپ کو کیا امیدیں ہیں۔ میں نے جواباً کہا، of course we are hoping for the best. پروفیسر نے طنزیہ انداز میں قہقہہ لگایا اور کہا oh, even with a lot of terrorism and blah blah. ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں نے اسے بہت انسلٹنگ محسوس کیا‘ مجھے نہیں معلوم کہ میری باقی کی صحافی ساتھیوں کو امریکی میزبان کا یہ رویہ کیسا لگا۔ کیونکہ کسی نے بھی اس پر کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔ سوائے میرے! میں نے پھر مہمان ہونے کی مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پروفیسر سے کہا کہ معاف کیجئے گا‘ میں یہاں آنے سے پہلے اپنے امریکی میزبان کے بارے میں خوشگوار خیالات رکھتی تھی۔ میری توقع تھی کہ ہم یہاں کھانے پر ایک خوشگوار ماحول میں ہلکی پھلکی گفتگو کریں گے اور اچھا وقت گزاریں گے۔ مجھے امید نہ تھی کہ میرے امریکی میزبان میرے ملک کے بارے میں ایسی گفتگوکریں گے۔ پھر میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ویسے ہم پاکستانی امریکیوں سے اچھے میزبان ہیں۔ ہم اپنے گھر آئے مہمان کو عزت دینا جانتے ہیں۔ ویسے بھی میرے ملک کیلئے میری حب الوطنی اور محبت کو آپ کسی بھی طور چیلنج نہیں کر سکتے۔ سوال نہیں اٹھا سکتے۔ you know love has no rason. پروفیسر نے حیرانی سے میری باتیں سنی اور پھر مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے اور کہا : well, I was just toying to learn about your country. پھر سید حسین صاحب نے لقمہ دیا اور کہا کہ ہاں ہمیں گفتگو ہلکے پھلکے موضوعات پر رکھنی چاہیے۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ موڑنے کے لئے ہم نے مسز این ونڈھم سے سوال کیا کہ آپ پروفیسر صاحب سے پہلی بار کہاں ملیں تھیں۔ ان کی انگریزی کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ خالص امریکی نہیں ہیں۔ اب پروفیسر اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں ہی ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھو چکے تھے پروفیسر ونڈھم نے بتایا کہ ان کی بیگم فرنچ ہیں اور پہلی بار وہ پیرس میں انہیں ملی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد پروفیسر صاحب ایکسکیوزمی کہہ کر پاورچی خانے میں چلے گئے اور ہم ان کی بیگم سے گفتگو کرتے رہے۔ جو اس بات پر حیران تھیں کہ پاکستان میں تو طالبان رہتے ہیں وہ تو عورتوں کو دبا کر رکھتے ہیں گھر سے نہیں نکلنے دیتے۔ میری ساتھی صحافی خواتین نے مسز این ونڈھم کے سوالات کے جواب میں بہت اچھے طریقے سے وضاحت کی کہ پاکستان میں قطعاً ایسا ماحول نہیں ہے نہ ہی وہاں طالبان رہتے ہیں۔ ایک ہماری دوست کہنے لگیں کہ آ پ ہمیں دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں تعلیم یافتہ ‘ روشن اور خوبصورت ماحول ہے۔ ہمارے خاندانوں نے ہمیں سپورٹ کیا تو ہم آج امریکہ میں آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اتنی دیر میں ڈنر کا وقت ہو چکا تھا۔ پروفیسر ونڈھم جو محفل سے غائب ہوئے تھے وہ دوبارہ حاضر ہو چکے تھے پتہ چلا کہ وہ پاکستانی مہمانوں کے لئے کچن میں کھانا پکانے گئے ہیں۔ ہم سب نے حیرت کا اظہار کیا تو ان کی بیگم کہنے لگیں کہ کھانا ہمیشہ پروفیسر ونڈھم بناتے ہیں۔ میرا پکایا ہوا ان کو پسند نہیں آتا۔ میں صرف اپنے بچوں کے لئے کھانا پکاتی ہوں۔ پروفیسر صاحب نے ہمارے لئے کیا کھانا بنایا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اپنے کوآرڈی نیٹر کی ہدایت کے مطابق اور حفظ ماتقدم کے طور پر ہم ڈینور کے ایک ریسٹورنٹ سے پاکستانی کھانا کھا کرگئے تھے۔ ہمارے امریکی میزبانوں نے اپنی طرف سے ہمیں بہترین سرو کیا۔ یہ اور بات کہ ہمارے ذائقے کی حسّیات اس کھانے کی عادی نہ تھیں۔ پھر بھی میں نے اپنی پلیٹوں میں چاول اور ابلی ہوئی مچھلی ڈال کر کھانے کی بھر پور کوشش کی۔ پروفیسر صاحب کہنے لگے ’’چونکہ آپ نے حلال کھانے کی آپش کی تھی اس لئے ہم نے ڈنر میں مچھلی تیار کی ہے۔‘‘ میٹھے میں آئس کریم ‘ چاکلیٹ کی بالز اور سیب سے بنی ہوئی کوئی ڈش تھی۔ میٹھا بہرحال مزے کا تھا۔ اس کے بعد مسز ونڈہم نے سب مہمانوں کو باری باری خوشبودار قہوہ پیش کیا۔ گھڑی کی سوئیاں ساڑھے نو بجا رہی تھیں۔ پروفیسر ونڈھم کہنے لگے کہ گھر میں امریکی کی بجائے فرنچڈ طرز زندگی اپنایا گیا ہے۔ کیونکہ مجھے امریکی کلچر اور طرز زندگی پسند نہیں۔ امریکی گھڑی کی سوئیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ مہمانوں سے جان چھڑاتے ہیں۔ سب کو ہنس کے ملتے ہیں مگر اندر سے کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ آپ لوگ کچھ دیر اور ہمارے گھر پر ٹھہریں ہمیں اچھا لگتا ہے مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانا گپ شپ کرنا۔اجازت لینے سے پہلے ہم چاروں صحافی خواتین نے اپنے امریکی میزبانوں کو پاکستان سے لائے ہوئے خصوصی تحائف پیش کئے۔ مسز این ونڈھم بے حد خوش ہوئیں انہوں نے اپنی ڈائری پر ہم سب سے تاثرات لکھوائے۔ میرے بیگ میری ڈائری موجود تھی میں نے پروفیسر ونڈھم کو ڈائری اور انہیں تاثرات لکھنے کو کہا۔ انہوں نے لکھا we are so blessed to be able to spend an evening, learning about pakistan, through such charming ambassadors. I hope that our path with cross again windham loopesko.