گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور میں مجھے چند ایسے اساتذہ سے کسبِ فیض کا موقع ملا جو اپنی نظیر آپ تھے۔ وُہ بہترین استادہی نہیں بلکہ بہترین انسان بھی تھے۔ ان کے بے شمار طلباء آج بھی ان کا نام سُنتے ہیں تو عقیدت و احترام سے سر جھکا دیتے ہیں۔ انہی اساتذہ میں ایک نام پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید خیال کا بھی ہے۔ وُہ پہلے میرے اُستاد اور پھر کئی سال تک میرے کولیگ رہے ۔ یوں تو مجھے اپنے تمام اساتذہ سے محبت تھی لیکن ڈاکٹر سید نذیر احمد اور ڈاکٹر عبدالحمید خیال سے میری محبت عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی ۔ ان کا خیال آتے ہی میری آنکھیںبھیگ جاتی ہیںاور یہی کیفیت اب بھی مجھ پر طاری ہے۔ مجھ جیسے بے شمار اولڈ راوینز اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طلباء ہیں لیکن اِس مادرِ علمی کو اِس بات پر فخر ہے کہ اُسے ان عظیم اساتذہ کی قد م بوسی کا شرف حاصل رہا ہے۔ ہماری تھوڑی بہت اہمیت اِس ادارے کی وجہ سے ہے لیکن یہ ادارہ اگر عظیم ہے تو ان اساتذہ کی وجہ سے ہے جن کے بغیر یہ کالج محض ایک عمارت ہے ۔ اِس کالج کی بے شمار یادیں میرے سینے میں محفوظ ہیں جن کا ذکر گاہے گاہے کرتا رہوں گالیکن آج کے کالم میں مجھے ڈاکٹر خیال(مرحوم) کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہم لوگ روا روی میں ان لوگوں کو بھی درویش کہہ دیتے ہیں جو پوری طرح اِس لفظ کے مستحق نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں درویشی ایک مکمل اور جامع طرزِ زندگی کا نام ہے جو بہترین انسانی صفات کی حامل ہوتی ہے۔ درویشی کے اِس معیار پر بہت ہی کم لوگ پورے اترتے ہیں ۔ ڈاکٹر خیال کا شمار ان بہت ہی کم لوگوں میں ہوتا ہے اور ایسے ہی درویش ڈاکٹر نذیر احمد بھی تھے۔ ڈاکٹر خیال کی بے شمار صفات کو بیان کرنے کے لئے تو ایک ضخیم کتاب کی ضرورت پڑے گی لہٰذا میں کالم کی ’’تنگی، داماں‘‘ کے پیشِ نظر ان کی دو ایک صفات کا ذکر ہی کر سکوں گا۔ ڈاکٹر صاحب کسی کو پریشانی یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اُس کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر فوراً اُس کی مدد پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ عام لوگ تو کِسی مصیبت میں پھنسے شخص کو محض ایک اچھا مشورہ دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انسان دوستی کا فرض ادا کر دیا لیکن ڈاکٹر صاحب اُس کے ساتھ مل کر خلوُص ِدل سے عملاًکوشش کرتے تھے کہ اُس کی پریشانی دور ہوسکے۔ اِس میں وُہ اپنا یا غیر کی تفریق نہیں کرتے تھے۔ راہ چلتا اجنبی بھی ان کے لئے اتنا ہی اہم ہوتا تھا جتنا ان کا کوئی دوست یا عزیز ۔ ان کی زندگی میں ایسی مثالیں بے شمار ہیں۔ ایک ایسی ہی مثال کا ذکر سُنیے: ڈاکٹر صاحب کالج کے بر آمدے میں جا رہے تھے۔ ان دنوں فرسٹ ائیر کے داخلوں کے سلسلے میں طلباء کے انٹر ویوز ہو رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر ایک لڑکے پر پڑی جو ایک طرف دیوار سے لگا آنسو بہا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے آگے بڑھ کر رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ پرنسپل صاحب نے محض اس بناء پر مجھے داخلہ دینے سے انکار کر دیا ہے کہ انھیں میرا ہئیر سٹائل پسند نہیں ۔ اُس لڑکے نے فلمی ہیروز کی طرح بال بڑھا رکھے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بالوں پر نظر ڈالی اور اُس سے کہا ’’آئو میرے ساتھ‘‘۔ پروفیسر فضا ء الرحمان (مرحوم ) پرنسپل تھے جن کا تقریباً 75 فیصد سر بالوں سے محروم تھا۔ ڈاکٹر صاحب پرنسپل کے دفتر میں جا کر کُرسی پر بیٹھ گئے ۔ لڑکا پاس کھڑا ہوگیا۔ پرنسپل صاحب نے آنے کی وجہ پُوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے کہا : ’’ فضا صاحب! (وُہ کسی کو سَر وغیرہ نہیں کہتے تھے) اِس لڑکے کو آپ نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ کیا میںاِس کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ ’’اِس کا ہئیر سٹائل مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘ فضاء صاحب نے کہا۔ ’’کیوں فضا صاحب ؟ فرض کیجئے یہ لڑکا کہے کہ مجھے آپ کا ہئیر سٹائل پسند نہیں ہے تو کیاآپ پرنسپل کی کُرسی چھوڑ دیں گے؟‘‘ یہ سُن کر پرنسپل صاحب خاصے نروس ہوگئے۔ انھیں کوئی جواب نہیں سُوجھ رہا تھا۔ دو لمحے توقف کیا۔ ادھر اُدھر دیکھا اور پھر کہنے لگے ’’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب میں اِس لڑکے کو داخل کرلیتا ہُوںــ۔‘‘ ’’تھینک یو فضا صاحب!‘‘ یہ کہہ کر اُٹھے اور دفتر سے نکل گئے۔ ڈاکٹر صاحب کالج کی ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ عوامی اور جمہوری مزاج کے مالک تھے۔ چھوٹے بڑے میں تمیز نہیں کرتے تھے۔ اساتذہ ، طالبِ علم اور کالج کا غیر تدریسی عملہ ، سب اُن کا احترام کرتے تھے اور دل سے پیار کرتے تھے۔ کالج کے چپراسی ، چوکیدار ، خاکروب ، انھیں سلام کرتے تو وُہ رُک کر سلام کا جواب دیتے اور حال چال پُوچھتے ۔ ایک روز وہ ایک چپراسی سے باتیں کر رہے تھے۔ بعد ازاں ایک پروفیسر نے ، جو اُن کا بے تکلف دوست تھا، ان سے کہا ’’تُم درجہ چہارم کے ملازمین سے بھی یوں گھل مل کر باتیں کرتے ہو جیسے وُہ تمہارے بچپن کے دوست ہوں۔ تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ تُم پروفیسر ہو ۔ اپنی حیثیت کا خیال رکھا کرو۔ ‘‘ اِس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا،’’ویسے تو تم بھی پروفیسر ہو لیکن تم نے ورجہ پنجم کے انسانوں جیسی بات کی ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب حکومت کے وظیفے پر پی۔ایچ۔ ڈی کرنے انگلینڈ گئے۔ ان کے انگریز نگران پروفیسر نے انگریزی زبان اور ادب پر اُن کی گرفت دیکھی تو بے حد مرعوب ہوا۔ وُہ ڈاکٹر صاحب کو طالبِ علم نہیں بلکہ دوست سمجھنے لگ گیا۔ جب دونوں ملتے تو یوں discussion ہوتی گویا دو سینئر پروفیسر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ جب پی ۔ ایچ ۔ڈی کر کے پاکستان واپس آئے تو وظیفہ کی رقم سے جو روپے بچ رہے تھے وُہ حکومت کو واپس کر دیے۔ ڈاکٹر صاحب کلاس روم سے باہر کبھی انگریزی میں بات نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر پنجابی میں بات کرتے تھے۔ انگریزی کے علاوہ انھوں نے فلاسفی اور اردو میں بھی ایم ۔ اے کیا ہوا تھالیکن انھوں نے کبھی اپنی علمیّت جتانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی اِس پر فخر کا اظہار کیا۔ گفتگو میں عالمانہ یا فلسفیانہ انداز کبھی اختیار نہ کیا۔ نیچرل اور نارمل انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک واقعہ انہی کی زبانی سُنیے۔ ’’ایک روز میں ٹرین کے انتظار میں لندن کے انڈر گرائونڈ ریلوے کے پلیٹ فارم پر ایک بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک اٹیچی تھا۔ میں نے دیکھا کہ اُس شخص کی شکل اُس وقت کے انگلینڈ کے وزیرِ اعظم انتھونی ایڈن سے ملتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وُہ وزیرِاعظم نہیں بلکہ اُس کا ہمشکل تھا۔ تاہم مجھ سے رہا نہ گیا۔ ایک ریلوے کا ملازم میرے پاس سے گزرا تو میں نے اُسے روکتے ہوئے پوچھا کہ یہ شخص کو ن ہے۔ اُس نے میرے سوال کے جواب میں کہا : BLOODY ANTHONY HE IS وُہ واقعی وزیرِ اعظم انگلستان تھا۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ یہاں کے وزیرِ اعظم اور پاکستان کے وزیرِ اعظم میں کیا فرق ہے۔ ہمارے وزیرِاعظم جہاں بھی جاتے ہیں ، پورے لائو لشکر کے ساتھ جاتے ہیں۔ جب انسان اندر سے خالی ہو تو باہر کی ٹیپ ٹاپ سے کمی پوری کرتا ہے۔