تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں پچھلے کئی روز سے اتار آ رہا ہے جس سے عام آدمی کو امید بندھی ہے کہ حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے میں تاخیر نہیں کرے گی ۔روپے کے مقابل ڈالر کے نرخ کم ہونے سے یہ اقدام بلا جواز نہیں رہا ۔بدھ کے روز برینٹ کام تیل کے نرخ 86.23 ڈالر فی بیرل رہے۔یورپ کی ضروریات کے لئے متبادل ذرائع سے گیس اور تیل کے انتظام کی کوششوں میں ابتدائی کامیابی کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید نیچے آ سکتے ہیں۔عہد حاضر کی معیشت ایندھن پر انحصار کرتی ہے ۔بجلی پیدا کرنے کے لئے،مال کی نقل و حمل کے لئے،لوگوں کے سفر کے لئے اور مشینیں چلانے کے لئے پٹرولیم مصنوعات پر انحصار کیا جاتا ہے ۔تیل کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی، ٹرانسپورٹ کرائے اور اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ آمدنی میں اضافہ نہ ہو اور ہر چیز کے نرخ آسمان کو چھونے لگیں تو خوفناک مہنگائی رگوں سے خون نچوڑ لیتی ہے۔اچھی استعداد کی مالک حکومتیں بحرانی کیفیت سے بچنے کے لئے قبل از وقت فیصلے کرلیتی ہیں۔ پاکستان کے پاس 354 ملین بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں ۔تیل ذکائر کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں باون نمبر پر ہے۔پاکستان روزانہ اوسطا 83000 بیرل تیل اپنے ذخائر سے نکالتا ہے۔یہ تیل اس کی 8.3 فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اگلے چند برسوں میں تیل کے نئے ذکائر دریافت نہ ہوئے تو دس سے بارہ سال میں موجودہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان کے پاس مجموعی طور پر ستائس ارب بیرل کے ذخائر موجود ہیں جن کو قابل استعمال بنانے کی ضرورت ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ پاکستان کی جانب سے تیل کی دریافت اور نکالنے کے منصوبوں پر سرمایہ کاری بتدریج کم ہو رہی ہے۔ پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن (PPDA) کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر قیمتیں کم ہوتی ہیں تو 15 دن کے بعد نمایاں اضافے کا اعلان کرنا انتہائی مشکل ہو گا لیکن اگلے دو ہفتوں کے دوران روپے کی قدر میں کمی جاری رہنے کا امکان ہے ۔اس ہچکچاہٹ کی بنیادی وجہ سیاسی ردعمل ہے جس کا سامنا مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کرنا پڑے گا ۔ ایندھن کی قیمتوں کے حوالے سے حکومت کے فیصلوں کی مخالفت کرنے والے عمران خان اکیلے نہیں ہیں۔ دیگر جماعتیں ، تاجر اور عوامی طبقات کی جان سے اصرار بڑھ رہا ہے کہ پٹرولیم کے نرخ کم کئے جائیں ۔خود مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں بد دلی پھیل رہی ہے ۔ساتھ ہی بجلی کے بلوں نے عوام پر بھاری مالی بوجھ ڈالا ہے۔ پیٹرول کی قیمت کے تعین میں بہت سے عوامل ہیں جوفیول اسٹیشن پر ادا کی جانے والی قیمت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ تیل وہ شے ہے جس سے تقریباً تمام دیگر ایندھن اپنی قیمت حاصل کرتے ہیں۔ تیل وہ خام مال ہے جس کی ریفائنریوں کو پیٹرولیم (POL) مصنوعات جیسے جیٹ فیول، مٹی کا تیل، ڈیزل وغیرہ کی ایک رینج تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو تمام متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل کی پیروی کی جاتی ہے۔ریگولیٹری ادارہ اوگرا تیل اور پی او ایل مصنوعات کی قیمتوں پر نظر رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ اوگرا کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں اور E-10 پٹرول کی قیمت کا نوٹیفکیشن دیکھتے ہیں تو Platts پلس ایوریج میں شامل پہلا جزو ان لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن (IFEM) ہے۔یہ مارجن تیل کی مارکیٹنگ کمپنی کی طرف سے تیار شدہ مصنوعات کو ریفائنری سے ملک بھر کے فیول اسٹیشنوں تک منتقل کرنے کے لیے اندرون ملک نقل و حرکت کی لاگت کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ پورٹ سے ریفائنری تک خام تیل کی نقل و حمل کے لیے ریفائنری کے اخراجات کو بھی پورا کرتا ہے۔ تازہ نوٹیفکیشن کے مطابق OMC مارجن 3.68 روپے فی لیٹر ہے جبکہ ڈیلرز کا کمیشن 7 روپے فی لیٹر ہے اس کے باوجود ڈیلر مزید کمیشن کے لئے ہڑتال کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔یہ مقررہ شرح اکثر تیل کے شعبے اور حکومت کے درمیان تنازعہ کا باعث بنتی ہے۔ نتیجہ؟ اس لحاظ سے آزاد منڈی کے اصولوں پر پابندی کئی بار ذخیرہ اندوزی جیسے غیر اخلاقی و غیر قانونی طریقوں پر منتج ہوتی ہے۔ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) ہر لیٹر پٹرول پر حکومت وصول کرتی ہے۔ یہ ایک ایکسائز ٹیکس ہے جو ایندھن کی فروخت پر لگایا جاتا ہے، خاص طور پر ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے۔ اس وقت پی ڈی ایل 37.42 روپے فی لیٹر پر ہے جو پچھلے مہینے کے 20 روپے سے زیادہ ہے۔ حکومت قیمتوں کے تعین کی موجودہ پالیسی کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتی، خاص طور پر اگر خام تیل کی قیمت USD 65/بیرل سے اوپر رہتی ہے جیسا کہ توقع کی جاتی ہے۔ موجودہ حالات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ایسے راستے تلاش کرنا بھی ضروری ہو گیا ہے جن کے ذریعے تیل کا بحران پیدا ہونے سے روکا جا سکے۔ ایک طویل المدتی حل یہ ہوگا کہ حکومت اپنی آمدن بڑھانے کے دیگر قابل اعتماد اور براہ راست ذرائع کو محفوظ بنانے پر توجہ دے تاکہ یہ پیٹرولیم مصنوعات پر اپنا انحصار مکمل طور پر کم کر سکے۔