وزیر اعظم عمران خاں کی پروڈکشن آرڈر سے متعلق قوانین میں ترمیم کی ہدایت کے بعد معاملہ وزارت قانون کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ سپیکر کو اسمبلی کے رول آف بزنس 108کے تحت کسی بھی گرفتار رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔یہ درست ہے کہ ماضی میں حکومتیں اپوزیشن کے اراکین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے جھوٹے مقدمات میں ملوث کرتی رہی ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدد اراکین اسمبلی نہ صرف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں بلکہ پروڈکشن آڈر ز جاری ہونے کے باعث تحقیقاتی اداروںکو تفتیش میں دشواری کا سامنا بھی رہا ہے۔ اپوزیشن مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ارکان کو تحقیقاتی اداروں کی گرفت سے بچانے کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کروا تی رہی ہے۔یہاں تک کہ گزشتہ دنوں سابق خود سپیکر کو نیب کی تحقیقات سے بچانے کے لیے سندھ اسمبلی کو سب جیل قرار دینے کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔یہی وجہ ہے کہ ایک شہری کو سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرنا پڑی کہ سپیکرز کو کرپٹ اراکین اسمبلی کے غیر قانونی پروڈکشن آڈرز جاری کرنے سے روکا جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا یہ کہنا درست محسوس ہوتا ہے کہ بدعنوانی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث اراکین اسمبلی کو سیاسی قیدی کی آڑ میں تحفظ اور مجرموں کے پروڈکشن آرڈر جاری کر نے کے اختیار کی صورت میں قانون کا مذاق بند ہونا چاہیے۔ بہتر ہو گا اس حوالے سے سپریم کورٹ ہی مناسب حکم جاری کرے تاکہ اراکین اسمبلی کی جانب سے قانون کے غلط استعمال کا خاتمہ اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکے۔